کرکٹ

سہولتوں کا فقدان…یہ ہے کرکٹ پاکستان

دنیا بھر میں فرسٹ کلاس کرکٹ کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور ان مقابلوں کا معیار بہتر بنانے کیلئے اقدامات کیے جاتے ہیں کیونکہ قومی ٹیم تک رسائی کیلئے یہ آخری مرحلہ ہے جسے کامیابی سے عبور کرتے ہوئے کھلاڑی اپنے ملک کی نمائندگی کے قابل سمجھے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیسٹ کھیلنے والے تمام ممالک اپنی فرسٹ کلاس پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں فرسٹ کلاس کرکٹ کیساتھ سوتیلی ماں جیساسلوک ہوتا ہے اور جو لوگ پاکستان کرکٹ بورڈ میں اس کرکٹ کے ٹھیکیدار ہیں انہیں فرسٹ کلاس کرکٹ سے کسی قسم کی دلچسپی نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں فرسٹ کلاس کرکٹ کا معیار دن بدن گرتا جارہا ہے۔
ماضی میں فرسٹ کلاس کرکٹ میں ’’نورا‘‘ میچز بھی کھیلے جاتے تھے جب ایک ٹیم کو تنزلی سے بچانے کیلئے دوسری ٹیم جان بوجھ کر شکست کو گلے لگا لیا کرتی تھی۔میچز کے دوران متعدد مرتبہ گیند تبدیل کرنا، بال ٹیمپرنگ اور پچ پر پانی چھوڑ دینا عام واقعات تھے جو اب کسی حد تک ختم ہوچکے ہیں لیکن میدانوں کی حالت، وکٹوں کا پست معیار اور ڈریسنگ رومز کی حالت زار آج بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔
مجھے ڈومیسٹک کرکٹ کی کوریج کرتے ہوئے تقریبا بارہ سال ہوچکے ہیں مگر اس عرصے میں انفراسٹرکچر میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ معیار پہلے کے مقابلے میں مزید پست ہوچکا ہے ۔پی سی بی کے ہیڈ کواٹر کے بغل میں واقع لاہور کا ایل سی سی اے گراؤنڈ بدنظمی کی بدترین مثال ہے جہاں فلڈ لائٹس تو نصب کردی گئی ہیں لیکن ڈریسنگ روم کے واش رومز بہتر نہیں کیے جاسکے۔پاکستانی ٹیم کے سابق کپتان مصباح الحق نے بھی اس جانب توجہ دلائی ہے جو ایل سی سی اے گراؤنڈ پر کھیلے جانے والے فرسٹ کلاس میچ میں سوئی نادرن گیس پائپ لائنز کی ٹیم حصہ ہیں جہاں ڈریسنگ روم کے اندر اور باہر صرف ایک پنکھا، دس بارہ پلاسٹک کی کرسیاں اور ایک واٹر کولر پاکستان کی فرسٹ کلاس کرکٹ کا منہ چڑارہے ہیں۔ سوئی نادرن گیس اور لاہور وائٹس کی ٹیموں میں مجموعی طور پر چھ ٹیسٹ کرکٹرز کھیل رہے ہیں جبکہ سہولتوں کا معیار کلب لیول کا بھی نہیں ہے۔

چند دن قبل ایل سی سی اے گراؤنڈ پر جب کلب چمپئن شپ کا فائنل کھیلا گیا تو مہمان خصوصی چیئرمین پی سی بی اور دیگر اہم عہدیداروں کیلئے پلک جھپکنے میں بہترین انتظامات کردیے گئے۔ آرام دہ صوفوں پر بیٹھ کر ٹھنڈی ہوا پھینکنے والے پیڈسٹل فینزکی ٹھنڈی ہوا میں چند منٹس تک میچ دیکھنے والے مہمانوں اس دوران ہائی ٹی سے بھی لطف اندوز ہوئے مگر پاکستان کا پرچم بلند کرنے والے کرکٹرز کیساتھ ایسا سلوک کیا جارہا ہے جیسا سلوک شاید جیل میں قیدیوں کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا۔
اسی طرح کی صورتحال راولپنڈی اسٹیڈیم پر بھی دیکھنے میں آئی ہے جہاں ڈریسنگ رومز کے اندر پانی کی سہولت موجود نہیں ہے جبکہ کھلاڑیوں کو واش رومز استعمال کرنے کیلئے ڈریسنگ روم سے باہر جانا پڑتا ہے۔راولپنڈی ، اسلام آباداور ایبٹ آباد میں ہونے والے بارش نے بھی پی سی بی کے انتظامات کا پول کھول دیا۔ اسلام آباد کے ڈائمنڈ گراؤنڈ میں تیسرے دن کے پہلے سیشن میں صرف چند اوورز کا کھیل ہی ممکن ہوسکا جبکہ ایبٹ آباد میں پورے سیشن کے دوران ایک بھی گیند نہ پھینکی جاسکی۔پنڈی اسٹیڈیم میں بھی ناقص انتظامات کے باعث کئی اوورز کا کھیل ضائع ہوا جبکہ کے آر ایل اسٹیڈیم میں گراؤنڈ اسٹاف نے کافی بہتر کام کرتے ہوئے کھیل کو ممکن بنایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے تینوں گراؤنڈز ریجن کی ٹیموں کے پاس ہے جبکہ کے آر ایل کا میدان ڈیپارٹمنٹ کی ٹیم کے زیر انتظام ہے اور یہاں یہ فرق واضح ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ میدانوں کی حالت بہتر کرنے کے معاملے میں کس حد تک سنجیدہ ہے۔
3مئی2018ء کو پی سی بی کے سابق چیئرمین کی سربراہی میں کرکٹ معاملات کے حوالے سے ایک اجلاس ہوا جس میں ڈومیسٹک کرکٹ کا انفراسٹرکچر بہتر بنانے کا عزم کیا گیا تھا ۔ اس حوالے سے چیئرمین پی سی بی کے مشیر کو یہ ’’ٹاسک‘‘ سونپا گیا کہ وہ ملک کا تمام فرسٹ کلاس سینٹرز کا دورہ کرکے پچز اور انفراسٹرکچر کے متعلق تیس دن کے اندر ایک رپورٹ پی سی بی کو ارسال کریں جس میں پچز اور انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کیلئے سفارشات اور تجاویز بھی پیش کریں۔

گزشتہ چار ماہ کے دوران پی سی بی کی جانب سے اس ضمن میں کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوئی اور گراؤنڈز کی حالت زار وہی ہے جس کا رونا گزشتہ کئی برسوں سے رویا جارہا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈمیں اب تبدیلی آنے والی ہے اور نئے چیئرمین سے بہت سی توقعات بھی وابستہ ہیں ۔اگر بورڈ میں ہونے والی تبدیلی کے باوجودبھی فرسٹ کلاس کرکٹ میں ’’تبدیلی‘‘ نہ آئی تو پھر قائد اعظم ٹرافی کو ختم کردینا چاہیے کیونکہ پی سی بی کی توجہ کا مرکز تو صرف اور صرف پاکستان سپر لیگ ہے

Add Comment

Click here to post a comment