کرکٹ

قائد اعظم ٹرافی…ہندسے کیا کہتے ہیں؟

یکم ستمبر سے پاکستان کے ڈومیسٹک سیزن کا آغاز ہونے جارہا ہے جس میں پریمئر ٹورنامنٹ قائد اعظم ٹرافی کیساتھ ساتھ ون ڈے کپ کے میچز بھی کھیلے جائیں گے۔ گرم موسم،شدید حبس،چھ دن میں چارروزہ میچ اور پھر ون ڈے میچ کھیلنا اور پھر اگلے میچ کیلئے سفر کرنا کسی بھی طرح کھلاڑیوں کیلئے امتحان سے کم نہیں ہے ۔یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر طویل بحث ہوسکتی ہے لیکن فی الوقت یہاں پاکستان کرکٹ کے سب سے بڑے اور معتبر ٹورنامنٹ قائد اعظم ٹرافی کی تاریخ کا تذکرہ کیا جارہا ہے جس کا آغاز 1953/54ء کے سیزن میں ہوااور اب تک اس ٹورنامنٹ کے 60 ایڈیشنز کا انعقاد کیا جاچکا ہے۔متعدد مرتبہ قائد اعظم ٹرافی کا فارمیٹ تبدیل کیا گیا کبھی یہ ٹورنامنٹ علاقائی ٹیموں کیلئے مخصوص ہوا تو کبھی محکمہ جاتی ٹیموں کے ساتھ اس کا انعقاد کیا گیا اور کبھی ایسوسی ایشنز اور ڈیپارٹمنٹس ایک ساتھ قائد اعظم ٹرافی میں شریک ہوئے۔سات ٹیموں سے شروع ہونے والے اس ایونٹ میں کبھی ٹیموں کی تعداد 26تک بھی جاپہنچی مگر تمام تر خوبیوں اور خامیوں کیساتھ قائد اعظم ٹرافی کو پاکستانی ڈومیسٹک سیزن میں نمایاں مقام حاصل ہے۔
1953/54کے پہلے سیزن میں ’’اسٹار‘‘ کھلاڑیوں کی خدمات حاصل کرتے ہوئے بہاولپور کی ریاست نے ٹائٹل کامیابی حاصل کی جبکہ پنجاب کا نمبر دوسرا رہا۔دوسرے ٹورنامنٹ میں کراچی کی ٹیم نے کامیابی اپنے نام کی تو پھر اگلے بارہ ایونٹس میں کراچی کی مختلف ٹیموں نے 9 مرتبہ قائد اعظم ٹرافی جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔ مجموعی طور پر کراچی کی نمائندگی کرنے والے مختلف ٹیموں نے مجموعی طور پر 20مرتبہ اس ٹورنامنٹ پر قبضہ کیا ہے جو کسی بھی علاقائی ٹیم کی جانب سے ٹائٹل فتوحات کی سب سے بڑی تعداد ہے۔اگر ٹیموں کی بات کریں تو کراچی بلیوز نے 9مرتبہ، پی آئی اے نے 7مرتبہ ، سوئی نادرن گیس نے 4مرتبہ اور یونائیٹڈ بنک نے 3 مرتبہ اس ٹرافی پر اپنا نام لکھوایا۔کپتان کی حیثیت سے عظیم بیٹسمین حنیف محمد کو سب سے کامیاب کپتان کہا جاسکتا ہے جنہوں نے چار مرتبہ قائد اعظم ٹرافی کو فضا میں بلند کرنے کا اعزاز حاصل کیا جبکہ معین خان تین مرتبہ کپتان کی حیثیت سے یہ ٹورنامنٹ جیتنے میں کامیاب ہوئے۔
انفرادی کارکردگی کی بات کریں تو سات عشروں میں صرف 9بیٹسمینوں کو قائد اعظم ٹرافی میں ہزار سے زائد رنز اسکور کرنے کا موقع ملا ہے جس میں سعادت علی سرفہرست ہیں جنہوں نے 1983/84ء کے سیزن میں ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کی طرف سے کھیلتے ہوئے 1217رنز کا پہاڑ کھڑا کردیا۔ اس کے علاوہ رضوان الزماں(1138)، اسد شفیق(1104)، یونس خان(1102)، امیر اکبر(1100)، آفاق رحیم(1088)، قاسم عمر (1078)، نعیم الدین(1045) اور کامران اکمل(1035) بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔قائد اعظم ٹرافی کے ایک ایونٹ میں سب سے زیادہ سنچریاں اسکور کرنے کا اعزاز فیصل آباد کے اعجاز احمد جونیئر اور ملتان کے نوید یاسین کو حاصل ہے جنہوں نے چھ چھ سنچریاں اسکور کیں۔حنیف محمد پہلے تین سیزنوں میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا منفرد اعزاز رکھتے ہیں اور قائد اعظم ٹرافی میں چار مرتبہ سب سے زیادہ رنزبنا کر یہاں بھی حنیف محمد سرفہرست ہیں۔
بالنگ کے شعبے میں کراچی وائٹس کے تنویر احمد نے 2009/10کے سیزن میں 85وکٹیں لے کر اعجاز فقہیہ کا ریکارڈ برابر کیا جنہوں نے 1985/86میں کراچی کیلئے 85آؤٹ کیے تھے۔ مجموعی طور پر 28مرتبہ بالرز نے ایک ٹورنامنٹ میں پچاس سے زائد وکٹیں حاصل کی ہیں ۔بہاولپور کے آف اسپنر مرتضیٰ حسین اور قومی ٹیسٹ ٹیم کے فاسٹ بالر محمد عباس مسلسل دوسیزنوں میں سب سے زیادہ وکٹیں اپنے نام کیں اور محمد عباس واحد بالر ہیں جنہوں نے دونوں مرتبہ پچاس سے زائد وکٹیں حاصل کیں۔ کبیر خان ، تنویر احمد اور محمد عباس وہ تین منفرد بالرز ہیں جنہوں نے ایک ٹورنامنٹ کے دوران آٹھ مرتبہ اننگز میں پانچ یا زائد وکٹوں کا کارنامہ سر انجام دیا۔

https://www.youtube.com/watch?v=Fu9fZ6hzLFk&feature=youtu.be

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے وکٹ کیپر نعیم انجم نے 2014/15ء میں وکٹوں کے عقب میں 53شکار کرکے قائد اعظم ٹرافی کا نیا ریکارڈ قائم کیا جبکہ کاشف محمود(لاہور شالیمار) اور ذوالقرنین حیدر(زرعی ترقیاتی بنک) ایک ٹورنامنٹ میں پچاس سے زائد شکار کرنے والے دیگر دو وکٹ کیپرز ہیں۔انیل دلپت، عارف الدین اور ذوالفقار جان نے چار مرتبہ قائد اعظم ٹرافی کے بہترین وکٹ کیپر کا ایوارڈ اپنے نام کیا جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ فیلڈنگ کے شعبے میں ایک ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ کیچز پکڑنے والے فیلڈر راولپنڈی کے فہیم عباسی ہیں جنہوں نے 1986/87ء کے سیزن میں 24کیچز پکڑے۔
قائد اعظم ٹرافی کا 61واں ایڈیشن یقیناًنئے اسٹارز کو بھی سامنے لائے گا جس میں نئے ریکارڈز بھی بنیں گے اور ممکن ہے کہ اوپر جن ریکارڈز کا تذکرہ کیا گیا ہے ان میں سے کچھ ٹوٹ بھی جائیں مگر اس کیلئے شرط جان توڑ محنت اور کارکردگی ہے جس کیلئے 400کھلاڑیوں نے کمر کس لی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ قائد اعظم ٹرافی میں ریکارڈ ساز کارکردگی کے بعد قومی ٹیم تک رسائی کی منزل قدرے آسان ہوجاتی ہے