گھر میں اگر 73سال کا بزرگ موجود ہو اور اتفاق سے کسی بھی قسم کا سفر درپیش ہو تو گھر میں موجود قدرے جوان افراد کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے بزرگ کیلئے سفر کو ہر ممکن حد تک آسان اور آرام دہ بنائیں مگر پاکستان کرکٹ بورڈ نے 73سالہ بزرگ کو قومی انڈر19ٹیم کا مینجر مقرر کردیا ہے جن کی ذمہ داری صرف کھلاڑیوں کو ڈیلی الاؤنس دینا نہیں ہے بلکہ پاکستان سے بنگلہ دیش تک ہوائی سفر کے تمام تر لوازمات بھی ان کی ذمہ داری میں شامل ہیں اور پھر ہوٹل کی بکنگ، کھلاڑیوں کو ہوٹل سے گراؤنڈ تک لے کر جانا اور واپس لانا بھی مینجر کی ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔مگر پی سی بی نے یہ تمام ذمہ داریاں ایک ایسے سابق ٹیسٹ کرکٹر کو سونپ دی ہیں جن کی عمر 73سال ہے اور ان کی قوت سماعت بھی اب ان کا ساتھ نہیں دیتی جس کی وجہ سے چند سال پہلے انہیں امپائرنگ کے شعبے کو بھی خیر کہنا پڑا تھا اور ممکن ہے کہ ذاتی حیثیت میں سفر کرتے وقت 73سالہ مینجرکیلئے کسی پوتے یا نواسے کی معاونت کے بغیر سفر کرنا ممکن نہ ہوتا ہولیکن کیا کہیں یہی انوکھے معاملات پاکستان کرکٹ کی پہچان ہیں!
جونیئر ایشیا کپ کا آغاز28ستمبر سے ہونا ہے مگر 7ستمبر کو کھلاڑیوں اور آفیشلز کے ناموں کا اعلان کردیا گیا اور ان ناموں کی منظوری سابق چیئرمین پی سی بی نے اگست کے دوسرے ہفتے میں دی ۔ ٹورنامنٹ کے انعقاد سے چھ ہفتے پہلے اسکواڈ اور آفیشلز کے ناموں کی منظوری دینے کی منطق سمجھ میں نہ آئی کہ آخر کار نجم سیٹھی کو ایسی کیا جلدی تھی کہ انہوں نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں عجلت کے دوران جونیئر ٹیم کی منظوری دی ۔چند دن پہلے تک اس سوال کا جواب تلاش کرنا شاید اتنا آسان نہ تھا مگر ناموں کا اعلان ہونے کیساتھ یہ گتھی بھی سلجھ گئی ہے۔
قومی انڈر19ٹیم کے پندرہ رکنی اسکواڈ میں بھی چند ایک ایسے نام موجود ہیں جن پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے لیکن سب سے زیادہ دلچسپ اور مضحکہ خیز تقرریاں ٹیم مینجمنٹ میں ہوئی ہیںجس میں 73سالہ سابق ٹیسٹ کرکٹر صادق محمد کو ٹیم مینجر مقرر کردیا گیا ہے۔3مئی 1945کو ریاست جوناگڑھ میں پیدا ہونے والے صادق محمد نے 41ٹیسٹ میچز اور19 ون ڈے انٹرنیشنلز میں پاکستان کی نمائندگی کی اور محمد برادران کے سب سے چھوٹے بھائی صادق کا شمار پاکستان کے چند عمدہ اوپنرز میں کیا جاتا تھا جنہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں کئی یادگار اننگز کھیلیں مگر کرکٹ منتظم کی حیثیت سے صادق محمد کارہائے نمایاں سر انجام دینے میں ناکام رہے ہیں۔ ڈومیسٹک کرکٹ میں کئی ٹیموں کی کوچنگ کرنے کے علاوہ صادق محمد نے میچ ریفری کی حیثیت سے بھی خدمات سر انجام دیں اور ایک ون ڈے انٹرنیشنل میں امپائر کی حیثیت سے بھی خود کو منوانے کی کوشش کی مگر قوت سماعت متاثر ہونے اور دیگر عوامل کے باعث صادق محمد کسی بھی میدان میں کامیابی نہ حاصل کرسکے ۔ یہاں تک کہ 2010کی ایشین گیمز میں صادق محمد کی کوچنگ میں پاکستانی ٹیم افغانستان سے بھی شکست کھا کر کانسی کا تمغہ لے کر وطن واپس آئی۔ ایشین گیمز میں ہونے والی شکست کے اسباب ایک الگ داستان ہیں جن پر پھر کبھی بات ہوگی۔ مختصراً انتظامی امور کے حوالے سے صادق محمد کے کریڈٹ پر ایسی کوئی کامیابی نہیں ہے جسے دیکھتے ہوئے انہیں جونیئر ٹیم کا مینجر بنایا جائے اور گزشتہ آٹھ برسوں سے صادق خود بھی ان معاملات سے دور رہے ہیں مگر اب اچانک دوستیوں کا صلہ دیتے ہوئے صادق محمد انڈر19 ٹیم کا مینجر بنا دیا گیا ہے جس کی وہ اہلیت نہیں رکھتے اور خود صادق محمد کے ساتھ بھی یہ زیادتی ہے کہ انہیں ایک 146146ٹاسک145145 سونپا گیا ہے جس میں نہ انہیں مہارت حاصل ہے اور نہ ان کی عمر اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ یہ ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا سکیں۔
بات صادق محمد پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اس ٹیم مینجمنٹ میں پی سی بی کے منظور نظر رشید برادران کے ایک محتشم رشید کو اسسٹنٹ مینجر بنا دیا گیا ہے جو اس سے قبل ویمن ٹیم کیساتھ منسلک تھے جہاں نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والے کوچ کی آمد کے بعد محتشم کی چھُٹی ہوئی تھی مگر اب پی سی بی نے انہیں جونیئر ٹیم کے ساتھ 146146ایڈجسٹ145145 کردیا ہے اور یہی ایڈجسٹمنٹ پاکستان کرکٹ کو نقصان پہنچا رہی ہے کیونکہ ان چلے ہوئے کارتوسوں کو ہر جگہ کھپایا جارہا ہے مگر جو لوگ اس کام کی اہلیت رکھتے ہیں وہ بورڈ سے باہر بیٹھے ہوئے ہیں۔
چلے ہوئے کارتوسوں کی بات چل نکلی ہے تو پھر لگے ہاتھوں منصور رانا کا بھی ذکر ہوجائے جن کیلئے نیشنل کرکٹ اکیڈمی اور پاکستان کی جونیئر ٹیمیں جاگیر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ رانا صاحب کی نگرانی میں اسی سال پاکستان کی انڈر 19ٹیم ورلڈ کپ میں شکست سے دوچار ہوئی ہے اور ورلڈ کپ کے علاوہ ایشیا کپ میں پاکستانی جونیئر ٹیم تین مرتبہ سوسے کم رنز پر آؤٹ ہوئی لیکن اس شاندار پرفارمنس کا صلہ منصور رانا کو پاکستان اے ٹیم کا مینجر بنا کر دیا گیا ہے جس کا باقاعدہ اعلان اگلے چند دن میں ہوجائے گا۔
پاکستان کرکٹ میں اقربا پروری اور بندر بانٹ کا سلسلہ نیا ہے مگر اب امید کی جاسکتی ہے کہ نئے چیئرمین احسان مانی کی آمد کے بعد یہ سلسلہ تھم جائے اور میرٹ میں تقرریاں ہوں کیونکہ چند لوگ اور خاندان پاکستان کرکٹ کو کئی برسوں سے چمٹے ہوئے ہیں اور اب وہ وقت آگیا ہے کہ ان سے چھٹکارا حاصل کرلیا جائے۔
Add Comment