ایشیا کپ کرکٹ

کیا یواے ای پاکستان پر مہربان ہوگا؟

متحدہ عرب امارات کے میدان ہوںاور معرکہ ایشیا کی حکمرانی کا ہوتو قسمت پاکستانی ٹیم پر کم ہی مہربان دکھائی دی ہے کیونکہ یو اے ای میں کھیلے گئے دونوں ایشیا کپ مقابلوں میں پاکستانی ٹیم کامیابی سے دور رہی اور دونوں مرتبہ گرین شرٹس نے تیسری پوزیشن پر اکتفا کیا۔ یو اے ای میں ایشیا کپ کے آسیب اور پاکستانی ٹیم کی بدقسمتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شارجہ کے میدان پر کامیاب ترین ٹیم کا درجہ پانے والی پاکستانی ٹیم کو اس تاریخی میدان پر ہر بڑا ٹورنامنٹ جیتنے کا اعزاز حاصل ہے مگر جب بات ایشیا کپ کی ہوتی ہے تو فتح کی دیوی پاکستانی ٹیم سے روٹھ جاتی ہے۔


1984ء میں شارجہ میں کھیلے گئے اولین ایشیا کپ میں پاکستانی ٹیم کو بھارت کیساتھ ساتھ سری لنکا کے ہاتھوں بھی شکست سے دوچار ہونا پڑا ۔ 1995ء میں ایشیا کپ کے پانچویں ایڈیشن کیلئے میلہ ایک مرتبہ پھر شارجہ میں سجا اور قومی ٹیم بھارت اور بنگلہ دیش کو شکست دینے کے باوجود سری لنکا اور بھارت کو فائنل میں کھیلتا ہوئے دیکھنے پر مجبور ہوئی۔مجموعی طور پر پاکستانی ٹیم نے یو اے ای میں کھیلے گئے دو ایشیا کپ مقابلوں میں پانچ میچز میں صرف دو کامیابیاں حاصل کی ہیں جبکہ تین شکستوں کا سامنا کرنا پڑا جس میں دو مرتبہ سری لنکن ٹیم نے پاکستان کو شکست سے دوچار کیا۔ دو مرتبہ بنگلہ دیشی سرزمین پر ایشیا کی حکمرانی کا اعزاز پانے والی پاکستانی ٹیم لگ بھگ 23سال کے بعد یو اے ای میں ایشیا کپ کھیل رہی ہے اور ممکن ہے کہ اس مرتبہ گرین شرٹس اپنی قسمت بدلنے میں کامیاب ہوجائے جبکہ اس مرتبہ ایشیا کپ کے مقابلے شارجہ کی بجائے دبئی اور ابوظہبی میں کھیلے جارہے ہیں جہاں حالیہ عرصے میں پاکستانی ٹیم نے کافی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
ایشیا کپ کے فارمیٹ پر اگر نظر ڈالیں تو اصل مقابلہ سپر فور میں شروع ہوگا جہاں دونوں گروپس کی دو ٹاپ ٹیمیں فائنل تک رسائی کیلئے پنجہ آزمائی کریں گی۔گروپ مرحلے میں پاک بھارت مقابلہ توجہ کا مرکز ہے جس میں کامیابی حاصل کرنے والی ٹیم سپر فور میں نفسیاتی برتری کیساتھ جائے گی اور یہی وہ مقابلہ ہے جس پر دنیا بھر کے شائقین کی نظریں لگی ہوئی ہیں کیونکہ آخری مرتبہ 2006ء میں یو اے ای کی سرزمین پر روایتی حریفوں کے درمیان جوڑ پڑا تھا جبکہ دو برس پہلے چمپئنز ٹرافی کے تاریخی کے بعد سے دونوں ٹیموں کے درمیان کوئی میچ نہیں کھیلا گیا ۔


یو اے ای میں پاکستانی ٹیم مجموعی طور پر 172ون ڈے انٹرنیشنلز میں 102میں کامیابی حاصل کرچکی ہے اور اگر دبئی اور ابوظہبی کے میدانوں کی بات کی جائے تو 2010ء میں یو اے ای کو باقاعدہ طور پر ہوم وینیو بنانے کے بعد پاکستانی ٹیم نے ان دومیدانوں پر 32ون ڈے انٹرنیشنلز کھیلے ہیں اور صرف14میں کامیابی حاصل کی ہے جبکہ 18میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے جو یقینا حوصلہ افزا نتائج نہیں ہیں۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ پچاس اوورز کے فارمیٹ میں حالیہ برسوں میں یو اے ای کے میدان پاکستانی ٹیم پر کچھ زیادہ مہربان نہیں رہے۔ یوں دیکھا جائے تو ایشیا کپ پاکستانی ٹیم کیلئے کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں ہے جہاں پاکستانی ٹیم کو نہ صرف بھارت کیخلاف اچھی کارکردگی دکھانے کا چیلنج درپیش ہے بلکہ ایشیا میں حکمرانی ثابت کرنے اور یو اے ای میں بہتر نتائج دینے کا ہمالیہ بھی سر کرنا ہے ۔ گرین شرٹس نے بھی ثابت کرنا ہے کہ2017ء کی چمپئنز ٹرافی کے فائنل میں بھارت کیخلاف ملنے والی تاریخی کامیابی فلوک نہیں تھی بلکہ قومی ٹیم ایشیا کپ میں بھی بھارت کو شکست دے سکتی ہے اور اس بات کا ثبوت بھی سرفراز الیون کو پیش کرنا ہے کہ یہ ٹیم زمبابوئے اور ویسٹ انڈیز جیسی ٹیموں کے علاوہ بھی کامیابی حاصل کرسکتی ہے جبکہ 14ویں ایشیا کپ میں تیسری مرتبہ اپنی حکمرانی ثابت کرنا پاکستانی ٹیم کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے اور چیلنجز کے ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کیلئے یو اے ای کے میدانوں کو پاکستانی ٹیم پر مہربان ہونا ہوگا

Add Comment

Click here to post a comment