تاریخ19ستمبر…میدان دبئی کا… اور مقابلہ ہے پاکستان اور بھارت کے درمیان… جس پر نہ صرف دونوں ملکوں کے کرکٹ دیوانوں بلکہ دنیا بھر کے کرکٹ شائقین کی نظریں لگی ہوئی ہیں اور توقع ہے کانٹے دار مقابلے کی …جو بارہ سال کے طویل عرصے کے بعد ایک مرتبہ پھریو اے ای کے میدانوں پر نبردآزما ہونگی۔شارجہ کا میدان ماضی میں روایتی حریفوں کے درمیان کئی تاریخی مقابلوں کا امین رہا ہے مگر اس مرتبہ یہ مقابلہ دبئی میں ہورہا ہے جہاں کھیلنا بھارتی ٹیم کیلئے ایک نیا تجربہ ہوگا۔اگر دونوں ٹیموں کا موازنہ کریں تو ایک طویل عرصے کے بعد پاکستانی ٹیم فیورٹ کی حیثیت سے بھارت کے خلاف میدان میں اترے گی اور ممکن ہے کہ اس مرتبہ روایتی حریفوں کے درمیان ویسا مقابلہ دیکھنے کو نہ ملے جس کی توقع کی جارہی ہے۔ہانگ کانگ کیخلاف بھارت نے جس طرح کی کارکردگی دکھائی ہے اس کے بعد یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ اس مرتبہ پاک بھارت مقابلے میں زیادہ سنسنی خیزی شاید دیکھنے کو نہ مل سکے۔
اگر حالیہ عرصے کی بات کی جائے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان ون ڈے انٹرنیشنلز کی سطح پر زیادہ تر میچز یکطرفہ رہے ہیں ۔ چاہے وہ ورلڈ کپ2015کا مقابلہ ہو یا پھر چمپئنز ٹرافی کا فائنل …فاتح ٹیم نے واضح برتری کیساتھ کامیابی حاصل کی ہے۔ایشیا کپ میں بھی یہی توقع ہے کہ پاکستانی ٹیم کو بھارت پر واضح برتری حاصل ہوگی جس کی کچھ ٹھوس وجوہات ہیں۔ گزشتہ آٹھ برسوں سے پاکستانی ٹیم یو اے ای میں اپنی ہوم سیریز کھیل رہی ہے اور یو اے ای کے تینوں وینیوز پاکستان کیلئے ہوم گراؤنڈ کا درجہ رکھتے ہیں جبکہ دوسری جانب بھارتی ٹیم ایک طویل عرصے کے بعد اس خطے میں کرکٹ کھیل رہی ہے ۔اس لیے کنڈیشنز اور گراؤنڈ کے حوالے سے پاکستان کو بھارت پر ایڈوانٹیج حاصل ہے۔
دنیا کرکٹ کے عظیم بلے باز اور بھارتی ٹیم کے کپتان ویرات کوہلی ایشیا کپ میں بھارتی ٹیم کا حصہ نہیں ہیں اور ان کے نہ ہونے سے بھارت کی بیٹنگ لائن ضرور متاثر ہوگی ۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے میچز ہمیشہ اعصاب کی جنگ ثابت ہوتے ہیں اور ان میچز میں بڑے کھلاڑیوں کا کردار بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے اس لیے ویرات کوہلی کی عدم موجودگی نہ صرف بھارت کی بیٹنگ لائن کو قدرے کمزور کردے گی بلکہ کپتان کی حیثیت سے بھی ان کی غیر موجودگی بھارت کی کارکردگی کو متاثر کرسکتی ہے۔پہلے میچ میں ہانگ کانگ جیسی ٹیم کے خلاف میچ بھی بھارت متاثر کرنے میں ناکام رہاجس میں بھارتی بیٹسمین تین سو کا ہندسہ بھی عبور نہ کرسکے، آخری دس اوورز میں محض 48رنز بن سکے اور پھر ہانگ کانگ کے اوپنرز نے 174رنز کا آغاز فراہم کرکے بھارتی بالرز کا پول کھول دیا۔ اگر چہ بھارت کے کپتان روہت شرما کا کہنا ہے کہ ہانگ کانگ کیخلاف میچ میں کارکردگی پاکستان کے خلاف میچ میں اثر انداز نہیں ہوگی لیکن اس بات کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کے مدمقابل کھیلتے ہوئے بھارتی ٹیم دباؤ میں دکھائی دے گی۔
گزشتہ برس کھیلے گئے چمپئنز ٹرافی کا فائنل تو کبھی نہیں بھلایا جاسکتا جس میں پاکستان نے تاریخی کامیابی حاصل کی تھی اور بھارتی ٹیم چمپئنز ٹرافی میں شکست کے باعث نفسیاتی دباؤ کا بھی شکار ہوگی جو ہر حال میں آج پاکستان کو شکست دے کر چمپئنز ٹرافی کا بدلہ لینا چاہے گی مگر اس شکست کو ذہنوں سے نکالنا بھارتی کھلاڑیوں کیلئے مشکل ہوگا۔
ان عوامل پر اگر نگاہ ڈالی جائے تو پاکستانی ٹیم کو بھارت پر واضح برتری حاصل ہے اور طویل عرصے کے بعد پاکستانی ٹیم فیورٹ کی حیثیت سے آج میدان میں اترے گی لیکن فیصلہ میدان کے اندر ہوگا کہ کون سی ٹیم کتنا بہتر پرفارم کرتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اس مرتبہ جوڑ ذرا کم زور کا ہے جس کا فائدہ یقیناًپاکستان کو ہوگا۔
Add Comment