ایشیا کپ کرکٹ

طوفانِ افغان

ایشیا کپ شروع ہوا تو عام خیال یہی تھا کہ فائنل میں پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں مدمقابل ہونگی اور اب بھی اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا جبکہ گمان یہی تھا کہ سری لنکا کی ٹیم ’’ٹف ٹائم‘‘ دے دی اور بنگلہ دیش کی ٹیم سپر فور مرحلے کیلئے کوالیفائی کرے گی۔ پانچویں ٹیم افغانستان تھی جو نہ تین میں نہ تھی نہ تیرہ میں کیونکہ حالیہ عرصے میں حوصلہ افزا کارکردگی دکھانے کے باوجود افغانستان سے بہت زیادہ توقعات نہ تھی جس کیلئے سب سے بڑی کامیابی یہی تصور کی جارہی تھی کہ افغان ٹیم بنگلہ دیش کو شکست دے کر سپر فور مرحلے میں جگہ بنا لے مگر ٹورنامنٹ کے پہلے مرحلے میں ہی افغانستان نے سب اندازوں کو غلط ثابت کردیا ہے اور ’’طوفانِ افغان‘‘نے سری لنکا اور بنگلہ دیش کو بہا کر لے جانے کے بعد پاکستان کے سامنے سر اُٹھائے کھڑا ہے۔
افغانستان کی کامیابی کا راز ٹیم ورک میں پوشیدہ ہے جس میں راشد خان کے علاوہ کوئی سپر اسٹار موجود نہیں ہے لیکن ٹیم کمبی نیشن اور ٹیم ورک کمال ہے جو بڑے حریفوں کے سامنے ڈٹ جاتا ہے۔ایشیا کپ کا پہلا مرحلہ اختتام پذیر ہونے کے بعد یہ واضح ہوگیا ہے جس ٹیم کا اسپن اٹیک بہتر ہے اس کیلئے کامیابی آسان ہوجاتی ہے۔ پاک بھارت میچ میں بھی اسپنرز نے بھار ت کی جیت میں اہم کردار ادا کیا اور پھر بنگلہ دیش نے بھی اپنے اسپنرز کی بدولت سری لنکا کو چت کیا جبکہ افغانستان کی دونوں کامیابیاں بھی راشد خان کی سربراہی میں اسپن اٹیک کی مرہون منت ہے۔
اگر ایشیا کپ میں شریک چھ ٹیموں پر ایک نگاہ ڈالی جائے تو حیران کن طور پر افغانستان کے پاس سب سے عمدہ اسپن اٹیک موجود ہے ۔ ون ڈے رینکنگ میں نمبر دو اور ٹی 20رینکنگ میں پہلی پوزیشن کے حامل لیگ اسپنر راشد خان کی اہلیت اور قابلیت پر بات کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے جنہوں نے محض 20سال کی عمر میں دنیا بھر کی ٹی20لیگز میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے ساتھ ساتھ ون ڈے فارمیٹ میں بھی اپنی لیگ اسپن بالنگ کا جادو جگایا ہے اور اب ایشیا کپ میں بڑی ٹیموں کیخلاف بھی اپنی جادوگری کو ثابت کردیا ہے۔ راشد خان کیساتھ ساتھ نوجوان لیگ اسپنر رحمت شاہ کی کارکردگی بھی نہایت متاثر کن رہی ہے جبکہ تجربہ کار محمد نبی اور مجیب الرحمن کی موجودگی نے افغانستان کے اسپن اٹیک کو ایشیا کپ میں ناقابل تسخیر بنا دیا اور یہی وجہ ہے کہ پہلے دونوں میچز میں سری لنکا اور بنگلہ دیش کی ٹیمیں افغانستان کی اسپن بالنگ کے سامنے بالکل بے بس دکھائی دیں۔
ایشیا کپ میں اگر اسپنرز نے افغانستان کی کامیابی میں کردار ادا کیا ہے تو دوسری طرف افغان بیٹسمینوں نے دونوں میچز میں عمدگی سے رنز اسکور کرتے ہوئے اپنی ٹیم کو بہتر آغاز فراہم کیا جس کے بعد اسپنرز نے اپنا جادو جگایا۔
ایشیا کپ میں طوفانِ افغان کو روکنا آسان نہیں ہے اور اگر آج پاکستانی ٹیم نے اس طوفان کے آگے بند نہ باندھا تو پھر نہ صرف گرین شرٹس کیلئے مشکل ہوجائے گا بلکہ افغانستان کیلئے ایشیا کپ کا فائنل کھیلنے کا راستہ بھی قدرے آسان ہوجائے گا۔افغانستان کے اسپنرزکو روکنے کیلئے پاکستانی بیٹسمینوں کو درمیانی اوورز میں بہتر کھیل پیش کرنا ہوگا اور خاص طور پر ان اوورز میں پارٹنرشپ قائم کرکے افغان بالرز پر دباؤ ڈالنا ہوگا۔یہ امید کی جاسکتی ہے کہ آج پاکستانی اوپنرز ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کارکردگی کو دہرانے کی کوشش کرنا ہوگی جو انہوں نے زمبابوئے میں دکھائی تھی۔
افغانستان کی ٹیم سپر فور میں کس طرح کی کارکردگی دکھاتی ہے اور کیا افغان ٹیم فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں ؟ ان سوالوں کا جواب اگلے چند دنوں میں مل جائے گا لیکن ٹورنامنٹ کے پہلے دو میچز میں افغانستان نے جس طرح کی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں ہے کہ سپر فور میں مخالف ٹیموں کیلئے ’’طوفانِ افغان‘‘ کے سامنے بند باندھنا آسان نہیں ہوگا!!