ایشیا کپ کرکٹ

اب تگڑے ہوجاؤ

پاکستان بمقابلہ بھارت…دو میچز …دو شکستیں اور بھی بہت بڑے مارجن سے …مگر قومی ٹیم کا راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ نہ کوچنگ اسٹاف کو کسی قسم کی تشویش ہے اور نہ کپتان کو کوئی پریشانی لاحق ہے بلکہ اُلٹی سیدھی اور بھونڈی تاویلیں پیش کرکے شکست کی کڑواہٹ کو کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن بھارت کیخلاف دونوں شکستوں نے پاکستانی ٹیم کی اہلیت کا پول کھول دیا ہے اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ گرین شرٹس کا ہنی مون پیریڈ ختم ہوچکا ہے جس میں انہوں نے زمبابوئے، آئرلینڈ، اسکاٹ لینڈ اور ویسٹ انڈیز جیسی ٹیموں کی کھل کر درگت بنائی۔اب ایشیا کپ سے لے کر ورلڈ کپ تک پاکستانی ٹیم کو سخت حریفوں کا سامنا کرنا ہوگا جس کیلئے قومی ٹیم کو اپنی کارکردگی کا معیار بڑھانا ہوگا۔
اگر ایک ٹورنامنٹ کے چار میچز میں ہر مرتبہ فائنل الیون تبدیل کی جارہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ٹیم مینجمنٹ اور کپتان کنفیوژن کا شکار ہے جس کے پاس کوئی پلان بی نہیں ہے۔ یہ کیسے تصور کرلیا گیا تھا کہ جس الیون نے زمبابوئے کا بھرکس نکالا تھا وہ بھارت کیخلاف بھی فتح گر پرفارمنس دکھائے گی؟اگر چمپئنز ٹرافی کے فائنل میں فخر زمان نے غیر معمولی اننگز کھیلی تھی تویہ کس طرح ممکن تھا کہ بھارتی ٹیم دوبارہ بھی فخر زمان کو وہ موقع فراہم کردے گی اور اس پر ہوم ورک نہیں کرے گی؟اگر محمد عامر چمپئنز ٹرافی کے فائنل کے بعد اب تک کھیلے گئے دس میچز میں سو سے زائد کی اوسط سے صرف تین وکٹیں ہی لے سکا ہے تو پھر ایسے بالر پر ہر مرتبہ کیوں بھروسہ کیا جارہا ہے؟ مڈل آرڈر میں شعیب ملک کے علاوہ کوئی بیٹسمین ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کررہا ہے تو کہیں نہ کہیں کوئی خامی موجود ہے جس کا ادراک نہیں کیا جارہا ہے۔
کمزور حریفوں کیخلاف کھیلتے ہوئے پاکستانی ٹیم کا اعتماد کوہ ہمالیہ پر پہنچ گیا تھا وہ ایشیا کپ میں زمین بوس ہوچکا ہے۔ گزشتہ دو برسوں میں بہترین فیلڈنگ سائیڈ کا درجہ حاصل کرنے والی ٹیم اگر دو میچز میں آدھے درجن کیچز گرا دے تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستانی ٹیم بڑے میچز کا دباؤ برداشت نہیں کرپارہی۔ جو کھلاڑی مشکل کیچز پکڑنے اور رن آؤٹ کرنے میں مہارت حاصل کرچکے تھے وہ ایشیا کپ میں آسان کیچز گرا رہے ہیں۔گرانٹ بریڈ برن پاکستانی ٹیم کے نئے فیلڈنگ کوچ ہیں مگر سابق کیوی کھلاڑی کے آنے کے بعد سے فیلڈنگ میں بہتری آنے کی بجائے مزید بگاڑ پیدا ہوگیا ہے۔ بریڈ برن پر زیادہ تنقید نہیں کی جاسکتی ہے جن کیلئے ایشیا کپ پہلی اسائنمنٹ ہے مگر گرانٹ فلاور لگ بھگ چار سال سے قومی ٹیم کے بیٹنگ کوچ ہیں مگر ابھی تک کسی بھی بیٹسمین کی تکنیک اور صلاحیت میں بہتری نہیں آئی بلکہ جس ٹیلنٹ پر ان بیٹسمینوں نے قومی ٹیم میں رسائی حاصل کی تھی وہ اسی صلاحیت اور اسی طریقہ کار پر بیٹنگ کررہے ہیں ۔اس لیے اب گرانٹ فلاور کی اہلیت پر سوال اُٹھانا ضروری ہوگیا ہے۔ اگر ٹیم کا اسٹرائیک بالر محمد عامر وکٹیں لینے کی بجائے رنز روکنے کی کوشش کررہا ہے تو پھر اظہر محمود کس مرض کی دوا ہیں جو عامر میں وکٹیں لینے کی بھوک بیدار کرنے میں ناکام ہورہے ہیں۔
جس ٹورنامنٹ میں بنگلہ دیش اور افغانستان کی ٹیمیں بھی جانتی ہیں کہ یو اے ای کی کنڈیشنز میں اسپنرز کے سہارے کامیابی مل سکتی ہے تو پاکستانی سلیکٹرز، کوچ اور کپتان یہ نقطہ سمجھنے میں ناکام کیوں ہیں؟کیا مکی آرتھر اور سرفراز احمد کی فہم و فراست پر سوال اُٹھانا جائز نہیں ہے جو نیوزی لینڈ میں ٹیسٹ میچز میں دو فاسٹ بالرز کھلاتے ہیں اور یو اے ای کی کنڈیشنز میں چار فاسٹ بالرز کیساتھ میدان میں اترتے ہیں جہاں دیگر ٹیمیں فائنل الیون میں تین تین اسپنرز شامل کررہی ہیں۔بنیادی غلطی اسکواڈ کے انتخاب میں کی گئی ہے جس میں شاداب خان کے ساتھ کوئی ’’پکا‘‘ اسپنر منتخب نہیں کیا گیا بلکہ محمد نواز جیسے پارٹ ٹائمر پر بھروسہ کیا گیا جو ٹی 20کے چار اوورز تو نکال سکتا ہے مگر دس اوورز کا اسپیل کرنا شاید نواز کے بس میں نہیں ہے ۔اگر چیف سلیکٹر اور کوچ کو اپنے فاسٹ بالرز پر اتنا بھروسہ تھا تو پھر ایک شکست کے بعد کیوں محمد نواز کیساتھ حارث سہیل کو اسپنر کی حیثیت سے کھلا کر اس شعبے کو مضبوط کرنے کی ناکام کوشش کیوں کی گئی ۔اضافی اسپنر اسکواڈ میں شامل نہ کرنے کا خمیازہ پاکستان کو ایشیا کپ میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔
بھارت کیخلاف دو میچز میں بری طرح ملنے والی ناکامیوں نے قومی ٹیم کے حوصلے پست کردیے ہیں اور بنگلہ دیش کیخلاف آخری میچ مارو یا مرجاؤ کے مترادف ہے جس میں ملنے والی کامیابی گرین شرٹس کو فائنل میں پہنچا دے گی جبکہ دوسری صورت میں گھر واپس آنا ہوگا۔ پاکستانی ٹیم میں اب بھی اتنی اہلیت ضرور ہے کہ وہ بنگلہ دیش کو شکست دے کر فائنل میں جگہ بنا لے اور ممکن ہے کہ فائنل میں گرین شرٹس چمپئنز ٹرافی کی تاریخ دہرا دے مگر فتح و شکست سے قطع نظر قومی ٹیم نے ایشیا کپ میں جو بلنڈرز کیے ہیں ، سلیکشن کمیٹی نے جو غلطیاں کی ہیں اور مکی آرتھر کی منصوبہ بندی سے عاری کوچنگ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ ایشیا کپ کے آخری تین میچز نے گرین شرٹس کو ’’ویک اَپ کال‘‘ دے دی کہ اب تگڑے ہوجاؤ!!