ایشیا کپ کرکٹ

سرفراز…کتنا کامیاب، کتنا ناکام؟

اگر چمپئنز ٹرافی کی جیت کا کریڈٹ سرفراز احمد کو دیا جاسکتا ہے تو پھر ایشیا کپ میں خراب کارکردگی پر بھی سرفراز کو تنقید کا نشانہ بنانے میں کسی کو برا منانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اگر آپ فتح کا تاج اپنے سر پر سجا سکتے ہیں تو پھر شکستوں کی گٹھری اُٹھاتے ہوئے بھی شرم محسوس نہیں ہونی چاہیے۔کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ سرفراز نے ہمیشہ ’’دھوکہ‘‘ دیا ہے جبکہ کچھ مانتے ہیں کہ سرفراز احمد اپنے کی طرح ہمیشہ سرفراز ہوا ہے جس کی مثال چمپئنز ٹرافی کی ٹائٹل فتح ہے۔ دونوں اطراف کی اس بحث کو نمٹانے کیلئے ضروری ہے کہ اعدادوشمار کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا جائے کہ سرفراز احمد ون ڈے انٹرنیشنلز میں کتنے کامیاب اور کتنے ناکام کپتان ہیں۔
2006ء میں کپتان کی حیثیت سے پاکستان کو جونیئر ورلڈ کپ میں فتح دلوانے والے سرفراز احمد نے 5اکتوبر2015کو زمبابوئے کیخلاف اظہر علی کی عدم دستیابی میں پہلی مرتبہ ون ڈے انٹرنیشنلز میں کپتانی کے فرائض سر انجام دیے جبکہ 7اپریل 2016ء کو ویسٹ انڈیز کے ٹور سے انہوں نے باقاعدہ طور پر پچاس اوورز کے فارمیٹ میں کپتانی کا آغاز کردیا۔ ایشیا کپ میں بھارت کیخلاف دوسرے میچ میں شکست تک سرفراز احمد نے مجموعی طور پر 28میچز میں کپتانی کرتے ہوئے 19میچز میں کامیابی حاصل کی جبکہ 9میں پاکستانی ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑاجو کسی بھی لحاظ سے خراب کارکردگی نہیں ہے۔

اگر سرفراز احمد کی انفرادی کارکردگی کی بات کی جائے تو کپتان کی حیثیت سے سرفراز احمد 28میچز میں صرف 302رنز بنا سکے ہیں جس میں محض دو نصف سنچریاں شامل ہیں جبکہ دوسری جانب عام کھلاڑی کی حیثیت سے کھیلتے ہوئے انہوں نے 66میچز میں لگ بھگ 35 کی اوسط سے 1498رنز دو سنچریوں کی آمیزش سے اسکور کیے جو کسی بھی اسپیشلسٹ بیٹسمین سے کم کارکردگی نہیں ہے۔


اگر کپتان اور عام کھلاڑی کی حیثیت سے سرفراز احمد کی کارکردگی کا موازنہ کیا جائے تو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے کہ کپتانی سرفراز احمد کی انفرادی کارکردگی پر اثر انداز ہوئی ہے۔
گزشتہ برس 7اپریل سے اگر پاکستانی ٹیم کی ون ڈے فارمیٹ میں کارکردگی پر ایک نظر ڈالی جائے تو پاکستان نے 27میں سے 18 میچز میں کامیابی حاصل کی جو انگلینڈ اور بھارت کی ٹیموں کے بعد تیسری بہترین کارکردگی ہے۔ یقیناًاس کارکردگی پر سرفراز احمد کی کپتانی کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جاسکتا جنہوں نے اس عرصے میں چمپئنز ٹرافی کا ٹائٹل بھی اپنے نام کیا۔


لیکن جب اس کارکردگی کا تفصیلی انداز میں پوسٹ مارٹم کیا گیا تو یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ انگلینڈ، بھارت، جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور سری لنکا جیسی ٹیموں کیخلاف پاکستان نے 17میں سے9کامیابیاں حاصل کی ہیں جبکہ 8مرتبہ ناکامی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔مجموعی طور پر یہ انگلینڈ ، بھارت اور نیوزی لینڈ کے بعد چوتھی بہترین کارکردگی ہے۔


دوسری جانب زمبابوئے، ویسٹ انڈیز، افغانستان، آئرلینڈ اور نان ٹیسٹ پلیئنگ ٹیموں کی درگت بنانے میں پاکستانی ٹیم سب سے آگے ہے جس نے اس دورانیے میں 10میں سے 9میچز میں فتح حاصل کی ۔


تقریباً18ماہ کی کارکردگی پاکستان کو ایک بہتر ٹیم اور سرفراز احمد کو بہتر کپتان ثابت کررہی ہے جس نے شکست کے مقابلے میں زیادہ فتوحات سمیٹی ہیں لیکن یہاں یہ نقطہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ان کامیابیوں میں سے زیادہ تر چھوٹی ٹیموں کے خلاف ہیں ۔7اپریل2017 سے سرفراز احمد کی کپتانی میں پاکستانی ٹیم نے یو اے ای میں 9میں سے7میچز جیتے ہیں جبکہ دو میں شکست ہوئی ہے۔ یہ دونوں شکستیں بھارت کیخلاف ہیں جبکہ سات میں پانچ کامیابیاں سری لنکاکیخلاف ہیں اور ایک ایک مرتبہ پاکستانی ٹیم نے ہانگ کانگ اور افغانستان کو شکست دی ہے۔ ان اعدادوشمار سے یہ تاثر مزید مضبوط ہورہا ہے کہ پاکستان نے اپنے ہوم گراؤنڈ پر بھی صرف کمزور اور ناتجربہ کار ٹیموں کو زیر کیا ہے ۔جب پاکستانی ٹیم ایشیا سے باہر کھیلتی ہے تو اسے 18میچز میں11فتوحات تو ضرور ملتی ہیں مگر 7مرتبہ ناکامی کا بھی سامنا کرنا پڑااور ان 11کامیابیوں میں پانچ زمبابوئے کیخلاف ہیں جبکہ دوسری طرف نیوزی لینڈ میں پاکستان کو پانچوں میچز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
سرفراز احمد کی کپتانی اور پاکستانی ٹیم کی حالیہ کارکردگی کے بارے میں اعدادوشمار کی روشنی میں حقیقت پسندانہ رائے یہی ہے کہ گرین شرٹس چھوٹی ٹیموں کیخلاف زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے لیکن بڑے حریفوں کے سامنے پاکستانی کھلاڑی اکثر جدوجہد کا شکار ہوجاتے ہیں مگر پاکستانی ٹیم کو مکمل طور پر رائٹ آف نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس ٹیم میں اتنا دم ضرور ہے کہ وہ کسی بھی دن کسی بھی ٹیم کو ناکوں چنے چبواسکتی ہے ۔ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ بڑے حریفوں کیخلاف بھی دباؤ سے آزاد ہوکر کرکٹ کھیلی جائے اور سرفرا ز احمد اگر فیلڈ میں اُتاولے ہونے کی بجائے اگر اپنی انفرادی کارکردگی پر توجہ دیں تو یہ پاکستان اور سرفراز دونوں کیلئے بہتر ہوگا۔

Add Comment

Click here to post a comment