کرکٹ

ورلڈ کپ…انشاء اللہ؟

چلیں چھوڑیں، بھول جائیں کہ ایشیا کپ میں کیا ہوا ،یاد بھی نہ کریں کہ 28ستمبر کو پاکستان کے ہوم گراؤنڈ(دبئی) میں بھارت اور بنگلہ دیش کی ٹیموں نے ایشیا کپ کا فائنل کھیلا اور اپنے ذہنوں سے یہ نکال دیں کہ پچھلے چند دنوں میں بھارت نے دو مرتبہ اور بنگلہ دیش نے ایک مرتبہ پاکستان کو شکست دی کیونکہ یہ سب ماضی کا حصہ بن چکا ہے لیکن جو مستقبل میں ہونے والا ہے اس سے خبردار کرنا بہت ضروری ہے۔
ورلڈ کپ 2019ء کے آغاز میں اب صرف چند ماہ کا وقت باقی رہ گیا ہے جس کیلئے باقی ٹیمیں خود کو ’’فائن ٹیون‘‘ کررہی ہے جبکہ پاکستان میں ’’آپریشن کلین اَپ‘‘ کی باتیں کی جارہی ہیں۔ایشیا کپ میں اچھی طرح اندازہ ہوگیا ہے کہ پاکستان ٹیم کہاں کھڑی ہے اور خطے کی دیگر ٹیمیں کہاں تک پہنچ چکی ہیں ۔ انگلینڈ اور نیوزی لینڈ جیسی ٹیموں کی ون ڈے میں پرفارمنس دیکھ کر جھرجھری سی آجاتی ہے جبکہ جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کو بھی کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ان حالات میں کیا ورلڈ کپ میں کامیابی کا خواب دیکھنا درست ہے ؟ اور اگر اس خواب کو درست کرنا ہے تو پھرعملی طور پر کچھ کرنا ہوگا کیونکہ بات اب ’’انشاء اللہ‘‘ سے آگے بڑھ چکی ہے!
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اسی ٹیم نے ایک برس قبل چمپئنز ٹرافی میں کامیابی حاصل کی اور 2019ء میں ورلڈ کپ کا انعقاد بھی انگلینڈ ہونا ہے جبکہ ماہِ رمضان ’’بونس‘‘ کا کام کرے گا تو یہ محض خام خیالی ہے اور سب سے بھونڈا جواز یہ ہے کہ یہی ٹیم چمپئنز ٹرافی جیت چکی ہے ۔اب یہ بات کون سمجھائے کہ چمپئنز ٹرافی جیتنے والی ٹیم ’’یہی‘‘ نہیں تھی بلکہ اُس میں تبدیلیاں ہوچکی ہیں۔
ایشیا کپ میں واضح ہوگیا کہ پاکستان کی بیٹنگ لائن میں تجربے کا فقدان ہے، مڈل آرڈ ر میں ایسے بیٹسمینوں کی کمی ہے جو اننگز کی تعمیر کرتے ہوئے ٹیم کو فتح بھی دلواسکیں اور ٹی20 کا ٹمپرامنٹ رکھنے والے کھلاڑیوں کو ون ڈے میں کھلانا کسی زیادتی سے کم نہیں ہے۔جس ٹیم نے پاکستان کو چمپئنز ٹرافی میں فتح دلوائی اس کی بیٹنگ لائن میں اظہر علی اور محمد حفیظ جیسے تجربہ کار اور قابل بھروسہ بیٹسمین موجود تھے جنہوں نے میچ وننگ اننگز کھیل کر پاکستان کی ٹائٹل فتح میں اپنا کردار ادا کیا مگر آج کی پاکستانی ٹیم میں شعیب ملک کے علاوہ ایسا کوئی بھی بیٹسمین موجود نہیں ہے جو فتح گر اننگز کھیل سکے۔ چمپئنز ٹرافی کے اختتامی میچز میں اہم ترین باریاں کھیلنے والے فخر زمان کو اگر ایشیا کپ میں بھارتی بالرز نے ’’پکڑ‘‘ لیا تو کیا پاکستانی بیٹنگ لائن کو بیٹھ جانا چاہیے ؟کیا پاکستانی ٹیم کے پاس کوئی پلان بی نہیں ہے ؟ یہی صورتحال بالنگ کے شعبے میں بھی دکھائی دے رہی ہے کہ اگر محمد عامر چمپئنز ٹرافی کے بعد وکٹیں نہیں لے پارہا تو پھر یہ ذمہ داری کون اُٹھائے گا ؟اور جو یہ ذمہ داری اُٹھا سکتا ہے اور خود کو ثابت بھی کرچکا ہے تو پھر اسے مستقل موقع کیوں نہیں دیا جاتا کیوں جنید خان ہمیشہ اُس وقت یاد آتا ہے جب تمام تر حربے ناکام ہوچکے ہوتے ہیں۔اگر سلیکشن کمیٹی اور ہیڈ کوچ سے یہ پوچھ لیا جائے کہ ون ڈے ٹیم میں دوسرا اسپنر کون ہے تو جواب آئیں بائیں شائیں کے سوا کچھ نہیں ہوگا ۔عماد وسیم کوفٹنس کے نام پر ’’غیر ضروری‘‘ طور پر قومی ٹیم سے دور رکھا ہوا ہے جبکہ محمد نواز کی قابلیت چار اوورز کی بالنگ سے زیادہ نہیں ہے ۔ان حالات میں شاداب خان کے ساتھ کون سا دوسرا اسپنر ورلڈ کپ اسکواڈ کا حصہ بنے گا جو موقع ملنے پر دس اوورز کرتے ہوئے وکٹیں بھی لے سکے ۔
اگر پاکستانی تھنک ٹینک یہ سمجھتا ہے کہ یہی دو چار کھلاڑی پاکستان کو فتح دلواسکتے ہیں تو اس خام خیالی سے باہر نکل آئیں کیونکہ ایشیا کپ میں ’’نام بڑے اور درشن چھوٹے‘‘ ثابت ہوگیا ہے اور سلیکشن کمیٹی، ٹیم مینجمنٹ اورکھلاڑیوں کو چمپئنز ٹرافی کے ’’ہینگ اوور‘‘ سے باہر آجانا چاہیے کیونکہ یہ درست ہے کہ ورلڈ کپ کا انعقاد انہی میدانوں پر ہونا ہے جہاں پاکستانی ٹیم نے چمپئنز ٹرافی اپنے نام کی تھی مگر حالات اور وقت کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں کی کارکردگی کا معیار بدل چکا ہے اور دیگر ٹیمیں خود کو پہلے سے بہتر کرچکی ہیں۔کھلاڑیوں کی سلیکشن اور فائنل الیون کا انتخاب صرف اور صرف حالیہ کارکردگی کی بنیاد پر کیا جانا چاہیے کیونکہ سفر ہمیشہ ماضی سے مستقبل کی جانب ہوتا ہے اور اگر اس میں ریورس گیئر لگ جائے تو پھر حال ایشیا کپ میں ناقص کارکردگی جیسا ہوتا ہے۔
ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کو یہ تحریر قبل از وقت محسوس ہو لیکن ورلڈ کپ سے پہلے ٹیم کی خامیاں دور کرنے کا یہی مناسب وقت ہے کیونکہ اگر اب بھی خامیوں پر قابو نہ پایا گیا تو پھر ورلڈ کپ میں گیم پلان محض ’’دعائیں‘‘ ہوگا

Add Comment

Click here to post a comment