کرکٹ

عمرمیں کیا رکھا ہے؟

ارے نہیں، بالکل بھی نہیں،یہاں عمر اکمل کی بات قطعی نہیں ہورہی اور ہوبھی نہیں سکتی کیونکہ عمر نہ رنز کررہا ہے اور نہ کسی کوتنگ کررہا ہے تو پھر سب سے چھوٹے اکمل کی بات کرنا بنتی نہیں…بات اُس عمر کی ہورہی ہے جو ہر گزرتے ہوئے پل کیساتھ کم ہوتی جارہی ہے اور پاکستان کرکٹ میں کچھ کھلاڑی ایسے بھی ہیں جن کیلئے وقت مُٹھی سے ریت کی مانند سرک رہا ہے اور اُن کی راہ میں رکاوٹ کارکردگی یا فٹنس کا معیار نہیں بلکہ صرف بڑھتی ہوئی عمر ہے کیونکہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی سلیکشن کمیٹی اس بات پر اٹکی ہوئی ہے کہ تیس سال سے زائد العمر کھلاڑیوں کو موقع نہیں دینا۔
90ء کی دہائی میں یہ رواج تھا کہ انڈر19 کرکٹ سے کھلاڑیوں کو انٹرنیشنل کرکٹ کھلا دی جاتی ہے اور اکثر کھلاڑی اپنی 30ویں سالگرہ سے پہلے ماضی کا حصہ بن جاتا تھا۔ شاداب کبیر کا ڈیبیو18سال کی عمر میں ہوا اور دو برس کے اندر کیرئیر ختم ہوگیا۔ عاقب جاوید جیسا بالر بھی 25سال کی عمر میں ’’سابق‘‘ ہوگیا۔ اسکول بوائے کی حیثیت سے ٹیسٹ ڈیبیو کرنے والا حسن رضا اپنی ٹین ایج میں ہی ختم ہوگیا اور ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب قبل از وقت کھیلنے والے کھلاڑی بہت جلد ماضی کی خوراک بن گئے۔ مصباح الحق جیسے کھلاڑیو ں نے اس ٹرینڈ کو تبدیل کیا اور پھر مصباح کی ٹیم میں سعید اجمل، ذوالفقاربابر، یاسر شاہ، عبد الرحمن جیسے منجھے ہوئے کھلاڑیوں کی اینٹری ہوئی جو ’’پکی‘‘ عمر میں قومی ٹیم کا حصہ بنے اور اپنے تجربے سے پاکستانی ٹیم کو فائدہ پہنچایا۔2010ء میں مصباح الحق کی کپتانی میں تجربہ کار کھلاڑیوں کو قومی ٹیم کا حصہ بنانے کا سلسلہ شروع ہوا جو کافی حد تک کامیاب بھی ہوا مگر اب سلسلے کو روکنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے۔
انضمام الحق نے چیف سلیکٹر بنتے ہی یہ شرط رکھ دی کہ اے ٹیم میں تیس سال سے زائد عمر کے کھلاڑیوں کو شامل نہیں کیا جائے گا ۔اس ’’اصول‘‘ کے سبب 2016ء میں سب سے پہلے پشاور کے آل راؤنڈر زوہیب خان کا نقصان ہوا جو نہ صرف ٹی20فارمیٹ میں کامیابی کیساتھ پشاور کی کپتانی کررہا تھا بلکہ دونوں شعبوں میں عمدہ کارکردگی بھی دکھا رہا تھا۔ اس کے بعد کراچی کے بیٹسمین آصف ذاکر کا مستقبل مخدوش ہوا جس نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں رنز کے انبار لگانے کے بعد پچھلی سلیکشن کمیٹی کے دور میں اے ٹیم کیلئے متاثر کن کارکردگی دکھا کر قومی ٹیم کے دروازے پر دستک دینا شروع کردی مگر تیس سال کی لائن کراس کرنا آصف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گیا۔پچھلے سیزن اور رواں سیزن میں کھلاڑیوں کی کارکردگی کو سامنے رکھا جائے تو فواد عالم ، خرم منظور، اعزاز چیمہ ،کاشف بھٹی، محمد عرفان (جیلر) ایسے نام ہیں جنہیں ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی دکھانے کے باوجود کسی سطح پر قومی ٹیم کا حصہ نہیں بنایا جارہا اور وجہ صرف یہ ہے کہ یہ کھلاڑی یا 30سال سے اوپر ہیں یا پھر اس عمر تک پہنچنے والے ہیں جبکہ قومی ٹیم میں زیادہ تر کھلاڑیوں کی عمریں 25سال سے کم ہیں۔
اوپر جن کھلاڑیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے انہوں نے اپنے تجربے اور مہارت کیساتھ ڈومیسٹک کرکٹ میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگر 39سال کی عمر میں اعزاز چیمہ بھرپور رفتار سے بالنگ کرتے ہوئے ہر سیزن میں وکٹیں لے رہا ہے تو پھر ایسے بالر کو قومی ٹیم میں موقع کیوں نہیں دیا جاتا۔فواد عالم رنز کے انبار لگا رہا ہے اور خرم منظور ڈومیسٹک کرکٹ کا بہترین اوپننگ بیٹسمین ہے مگر اس کے باوجود یہ دونوں ٹیسٹ کرکٹر قومی ٹیم سے دور ہیں۔ کاشف بھٹی اور محمد عرفان دو ایسے کھبے اسپنرز ہیں جنہیں ڈومیسٹک کرکٹ میں پکڑنا نہایت مشکل ہے اور اب ان کی اگلی منزل اگر پاکستانی ٹیم نہیں تو اے ٹیم ضرور ہے۔ خاص طور پر محمد عرفان (جیلر) نے گزشتہ دو سیزنوں میں ایک چھوٹی ٹیم کا حصہ ہوتے ہوئے اکیلے اپنی ٹیم کو سہارا دیتے ہوئے نہ صرف وکٹیں لیں بلکہ بیٹنگ میں مفید رنز کرتے ہوئے فیلڈنگ میں بھی اپنی موجودگی کا ثبوت دیا۔چیف سلیکٹر انضمام الحق کھبے اسپنر محمد عرفان(جیلر) کی صلاحیتوں اور کارکردگی سے پوری طرح آگاہ بھی ہیں مگر ابھی تک ’’جیلر‘‘ کو چانس نہیں مل سکا۔
آسٹریلیا کیخلاف اے ٹیم میں عابد علی اور افتخار احمد کو شامل کیا گیا جنہوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں کافی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ افتخار احمد اس چانس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکا لیکن عابد علی نے میچ کے پہلے دن کے اختتام پر ناقابل شکست 83رنز بنا کر اپنے انتخاب کو درست ثابت کیا ۔ عابد علی نے اگلے مرحلے پر خود کو ثابت کیا ہے اور بالکل اسی طرح جن کھلاڑیوں کا ذکر کیا گیا یہ بھی اے ٹیم یا سینئر ٹیم میں اپنی صلاحیتیں ثابت کرسکتے ہیں جس کیلئے شرط یہ ہے کہ ان کی عمر کو ایک طرف کرتے ہوئے صرف اور صرف کارکردگی کی بنیاد پر منتخب کیا جائے کیونکہ عمر میں کچھ نہیں رکھا بلکہ ڈومیسٹک کرکٹ میں چند سال گزارنے کے بعد یہ کھلاڑی دوسروں کے مقابلے میں زیادہ تجربہ کار اور پختہ ہیں اس لیے ضروری ہے کہ ان کھلاڑیوں کو ڈومیسٹک کرکٹ کی خوراک بنانے کی بجائے ستارے والی شرٹ پہنا کر پاکستان کو فائدہ پہنچایا جائے۔