ایشیا کپ میں سینئر ٹیم کی ناکامی کا زخم ابھی ہرا ہی تھا کہ جونیئرٹیم نے بھی ایشیا کپ میں سینئرز کی کارکردگی کو دہراتے ہوئے پہلے ہی راؤنڈ میں باہر ہوگئی !
یو اے ای میں کھیلے گئے ایشیا کپ میں سینئر ٹیم ہانگ کانگ کو ہرانے کے بعد افغانستان کیخلاف بمشکل کامیابی حاصل کرسکی تھی اور پھر بھارت کیخلاف دو شکستوں کیساتھ ساتھ اہم ترین میچ میں بنگلہ دیش کے ہاتھوں ملنے والی ناکامی نے گرین شرٹس کو فائنل تک رسائی سے روک دیا۔ لگ بھگ یہی کچھ جونیئر ٹیم کے ساتھ بھی ہوا جس نے پہلے میچ میں ہانگ کانگ کو شکست دی اور پھر سری لنکا کے سامنے ڈھیر ہوگئی۔ سیمی فائنل تک رسائی کیلئے بنگلہ دیش کیخلاف میچ میں کامیابی ضروری تھی مگر اس اہم ترین میچ میں پاکستانی انڈر19شکست سے دوچار ہوکر گھر واپس آگئی۔
پاکستان کی جونیئر ٹیم کی یہ ناکامی محض اتفاق نہیں ہے بلکہ اس سے قبل گزشتہ برس نومبر میں کھیلے گئے ایشیا کپ میں پاکستان نے سری لنکا اور بنگلہ دیش کو زیر کرکے فائنل تک رسائی حاصل کی مگر گروپ مرحلے میں افغانستان سے شکست کھانے کے بعد فائنل میں بھی افغان ٹیم کے ہاتھوں ناکامی نے پاکستان کو ٹائٹل کو محروم کردیا۔رواں سال کے آغاز میں کھیلے گئے جونیئر ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم افغانستان سے چت ہونے کے باوجود سپر لیگ میں جنوبی افریقہ کو زیر کرکے سیمی فائنل تک پہنچ گئی مگر سیمی فائنل میں بھارت نے 203رنز سے شکست دے کر گرین شرٹس کو گھر بھیج دیا۔
اگر دو سال کے اس عرصے میں ان تینوں ٹورنامنٹس میں پاکستان کی انڈر19ٹیم کی کارکردگی پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ ایشیا میں تگڑی ٹیموں کیخلاف پاکستانی بوائز جدوجہد کرتے ہوئے دکھائی دیے۔افغانستان نے تین مرتبہ پاکستانی ٹیم کو شکست دی ، بھارت سے ایک مرتبہ جوڑ پڑا اور بھاری بھر کم شکست پاکستان کے حصے میں آئی۔ سری لنکا اور بنگلہ دیش کیخلاف کھیلے گئے دو دو میچز میں فتح و شکست کا مارجن ففٹی ففٹی رہا۔اگر مزید باریک بینی سے ان شکستوں کا پوسٹ مارٹم کیا جائے تو پاکستانی بیٹسمین کم و بیش ہر مرتبہ اسپن بالنگ کے جال میں الجھتے ہوئے دکھائی دیے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستانی ٹیم اہم میچز میں بڑا ٹوٹل اسکوربورڈ پر سجانے میں ناکام رہی ہے جبکہ ان تینوں ٹورنامنٹس میں ایک آدھ اچھی کارکردگی کے علاوہ بالرز کی طرف سے تسلسل کیساتھ اچھی کارکردگی دیکھنے کو نہیں ملی۔
چاہے سینئر کرکٹ ہو یا جونیئر یہ بات جان لینی چاہیے کہ اب ’’چھوٹی‘‘ ٹیموں کی کارکردگی کا معیار بہت حد تک بلند ہوچکا ہے اس لیے اب بنگلہ دیش یا افغانستان ترنوالہ ثابت نہیں ہوتیں بلکہ ناکوں چنے چبوادیتی ہیں۔ماڈرن کرکٹ میں دوسری ٹیموں کا مقابلہ کرنے کیلئے اب ضروری ہوچکا ہے کہ کھیل کا معیار بڑھایا جائے اور اس کیلئے ضروری ہے کہ باصلاحیت کھلاڑیوں کے انتخاب کیساتھ ساتھ کوچنگ کے طریقہ کار کو بھی تبدیل کیا جائے۔ اگر جونیئر ایشیا کپ میں ٹیم سلیکشن کی با ت کی جائے تو اس پر بہت زیادہ بات ہوسکتی ہے کیونکہ گزشتہ برسوں کی طرح اس مرتبہ بھی ڈومیسٹک کرکٹ کے چند ٹاپ پرفارمرز کو نظر انداز کردیا گیا ۔دوسرا اہم ترین مسئلہ کوچنگ کا ہے کہ اس سطح پر جن کوچز نے ڈومیسٹک کرکٹ کی سطح پر نتائج حاصل کیے ہیں انہیں ایک طرف کرکے ایسے کوچز کو جونیئر ٹیموں کیساتھ روانہ کردیا جاتا ہے جنہوں نے ڈومیسٹک کرکٹ میں یا جونیئر ٹیموں کی کوچنگ نہیں کی ہوتی یا پھر ان کا ریکارڈ قابل ذکر نہیں ہوتا مگر پاکستان کرکٹ بورڈ کی کرم نوازیاں جونیئر ٹیموں کو ناکامی کے گڑھے میں دھکیل رہی ہیں۔ قومی انڈر19ٹیم کے موجودہ کوچ کی اگر کارکردگی کا ریکارڈ نکالا جائے تو ڈومیسٹک کرکٹ میں انہوں نے جونیئرز کی کوچنگ کرتے ہوئے کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دیا لیکن انہیں انڈر19ٹیم کا کوچ بنا دیا گیا ۔دوسری طرف اس سطح پر ڈومیسٹک کرکٹ میں کامیابیاں حاصل کرنے والے محمد مسرور اور ساجد شاہ جیسے کوچز کا کہیں نام تک نہیں ہے جو پورا سال ایج گروپ کرکٹ میں محنت کرتے ہوئے نہ صرف نتائج حاصل کرتے ہیں بلکہ کھلاڑیوں کی نشونما میں بھی اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں مگر جب بھی ورلڈ کپ یا ایشیا کپ جیسے مقابلوں کا انعقاد ہوتا ہے تو منظور نظر کوچز کو ٹیم کیساتھ بھیج دیا جاتا ہے۔
باصلاحیت کھلاڑیوں کی نشاندہی ، میرٹ پر سلیکشن اور درست کوچز کا انتخاب ایسے عوامل ہیں جو کسی بھی جونیئر ٹیم کی بنیاد ہے مگر بدقسمتی سے گزشتہ چند برسوں سے ان تینوں عوامل کو بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کی جونیئر ٹیم اب ایشیا کپ کے سیمی فائنل تک بھی رسائی حاصل نہیں کرپائی!
Add Comment