پاکستان کرکٹ میں ہمیشہ سے چند کھلاڑی ’’لاڈلے‘‘ رہے ہیں جنہیں کسی نہ کسی طرح قومی ٹیم میں شامل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور انہیں مواقع دیے جاتے ہیں کہ وہ ایک آدھ اچھی پرفارمنس دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور پھر انہیں منتخب کروانے بغلیں بجاتے نہیں تھکتے ۔ ان لاڈلوں میں ایک ایسا بھی ہے جو گزشتہ دس برسوں سے پاکستان کی مختلف ٹیموں کا حصہ رہا ہے مگر آفرین ہے کہ اس نے ایک مرتبہ بھی اپنے ’’گاڈ فادرز‘‘ کو اپنی پرفارمنس سے خوش کیا ہواور بے شرمی کی حد یہ ہے کہ نہ تو گاڈ فادرز اسے ٹیم شامل کروانے سے باز آتے ہیں اور نہ ’’پنڈی بوائے‘‘ سے پرفارمنس ہوتی ہے جو کولہو کے بیل کی طرح چکر پر چکر کاٹتے ہوئے یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ ترقی کی منزلیں طے کررہا ہے لیکن حقیقت میں وہ آج بھی اسی جگہ کھڑا ہے جہاں آج سے دس سال پہلے کھڑا تھا۔
عمر امین کا نام سامنے آتے ہیں کچھ لوگوں کے ذہن میں ایک باصلاحیت کھلاڑی کا تصور جنم لیتا ہے جو ’’بدقسمتی‘‘ سے کارکردگی دکھانے میں ناکام ہے اور انہیں یہ امید ہے کہ ایک دن ضرور آئے گا جب عمر امین ملک و قوم کا نام روشن کرے گا۔ بھولی بھالی شکل و صورت والا 29 سالہ بیٹسمین پاکستان سپر لیگ میں پاکستان کا نام روشن کرتے کرتے رہ گیا اور ’’بدنامی کا جھنڈا‘‘ کسی اور کے ہاتھ میں پکڑا دیا گیا ۔خیر اس قصے کو یہی دبا دیتے ہیں کیونکہ پاکستان کرکٹ بورڈ ’’معصوم‘‘ عمر امین کو ’’نیک نامی‘‘ کی سند دے چکا ہے ۔
بات خالصتاً کارکردگی کی کرتے ہیں کیونکہ پی سی بی کی چار رکنی سلیکشن کمیٹی نے عمر امین کو تین ٹی20میچز کیلئے پاکستان کی اے ٹیم کا کپتان نامزد کیا ہے ۔نیوزی لینڈ اے کیخلاف 12اکتوبر سے یہ سیریز یو اے ای میں کھیلی جائے گی جہاں عمر امین کا ٹی20ریکارڈ گزارے لائق بھی نہیں ہے ۔یو اے ای میں کھیلی گئی ٹی20انٹرنیشنلز کی تین اننگز میں دو صفر عمر امین کا منہ چڑا رہے ہیں جبکہ پی ایس ایل کے میچز کو ملا کر اگر کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو صفر کی ہیٹ ٹرک کیساتھ ’’باصلاحیت‘‘ بیٹسمین نے گیارہ اننگز میں 10.90کی اوسط اور 90 کے اسٹرائیک سے محض 109رنز ہی بنائے ہیں ۔ان گیارہ اننگز میں بائیں ہاتھ کے بیٹسمین نے 10چوکے اور صرف ایک چھکا لگایا۔ عمر امین کی افادیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پی ایس ایل کے پہلے ایڈیشن میں اسلام آباد یونائیٹڈ نے کھبے بیٹسمین کو صرف دو میچز میں موقع دیا جس میں پہلے مقابلے میں عمر امین کو کھاتہ کھولنے کا موقع نہ مل سکا ۔دوسرے ایڈیشن میں لیفٹ ہینڈر کا تمام تر ٹیلنٹ پانی پلانے کی نذر ہوگیا جبکہ تیسرے ایڈیشن میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے چھ مرتبہ بائیں ہاتھ کے بیٹسمین پر بھروسہ کیا مگر ہر مرتبہ گلیڈی ایٹرز کے اعتماد کو ٹھیس ہی پہنچی کیونکہ ایک بڑے پلیٹ فارم پر کارکردگی دکھانا شاید عمر امین کے بس میں نہیں ہے مگر اس کھلاڑی میں ٹیلنٹ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے ۔یہی وہ جواز ہے جو سلیکشن کمیٹی ہر مرتبہ پیش کرکے راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے بیٹسمین کو منتخب کرلیتی ہے۔
پاکستان اے کیلئے منتخب ہونا عمر امین کیلئے پہلا موقع نہیں ہے بلکہ 2009ء میں 20سالہ کھلاڑی کو محمد حفیظ کی کپتانی میں پاکستان اے کیساتھ آسٹریلیا بھیجا گیا جہاں غیر معمولی کارکردگی دکھا کر عمر اکمل قومی ٹیم کا حصہ بن گیا جبکہ اظہر علی نے اپنی پرفارمنس سے خود کو سینئر ٹیم کے مزید قریب کرلیامگر عمر امین تینوں فارمیٹس کی چھ اننگز میں 96رنز ہی بنا سکا۔اسی سال عمر امین کو اے ٹیم کیساتھ سری لنکا بھی بھیجا گیا جہاں فرسٹ کلاس میچ میں 153رنز کی اننگز سمیت بائیں ہاتھ کے بیٹسمین نے 8اننگز میں302 رنز بنائے اور واحد سنچری نے عمر امین کو اگلے برس ٹیسٹ کرکٹر بنا دیا۔ انگلینڈ میں چار ٹیسٹ میچز کی ناکامی کے بعد کھبا بیٹسمین 2010/11میں اے ٹیم کیساتھ ویسٹ انڈیز جانے میں کامیاب ہوگیا مگر چھ اننگز میں103رنز واضح ناکامی تھی۔ آنے والے دنوں میں قومی ٹیم سے ان اور آؤٹ ہونے والے بیٹسمین کو کبھی سارک کپ، کبھی ایشین گیمز میں بھی بھیجا گیا مگر ’’محدود‘‘ صلاحیت کا حامل بیٹسمین یہاں بھی ناکام رہا۔ بالآخر 2016/17میں زمبابوئے کے دورے پر اے ٹیم کیساتھ عمر امین نے تین فرسٹ کلاس اننگز میں36رنز بنانے کے بعد پانچ ون ڈے میچز میں تین نصف سنچریاں اسکور کرکے پہلی مرتبہ اے ٹور کو کسی حد تک کامیاب بنا لیا۔
گزشتہ دو برسوں کے دوران کئی مرتبہ عمر امین کو قومی ٹیم کا حصہ بنانے کی کوشش کی گئی مگر لاہور میں سری لنکا کیخلاف 45رنز بنانے والا بیٹسمین نیوزی لینڈ میں کیوی بالرز کے سامنے کریز پر ’’اُچھل کود‘‘ کرکے واپس آگیا۔سری لنکا کیخلاف ہوم سیریز میں عمر امین کو ’’اِن‘‘ کرنے کیلئے جس طرح میرٹ کی دھجیاں اُڑائی گئیں وہ ایک الگ قصہ ہے ۔
پاکستان کرکٹ بورڈ اور اس کی سلیکشن کمیٹی آخر کیوں پاکستانی شائقین کرکٹ کو بے وقوف بنا رہی ہے ۔ کیوں اُن کھلاڑیوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے جو پرفارمنس دینے کے باوجود سلیکٹرز کی نظر کرم سے محروم ہیں۔کیا ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ انہیں کسی گاڈ فاڈر کی پشت پناہی حاصل نہیں ہے ۔ ان کھلاڑیوں کا قصور یہ ہے کہ ان کاتعلق ایسے کوچز سے نہیں ہے جو سلیکشن پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں ۔
میں عمر امین کو ’’چلا ہوا کارتوس‘‘ بھی نہیں کہوں گا کیونکہ اس ’’خطاب‘‘ کیلئے ضروری ہے کہ کبھی نہ کبھی ،کہیں نہ کہیں ماضی میں کارکردگی بھی دکھائی ہو مگر عمر امین کے معاملے میں ایسا کہیں دکھائی نہیں دیتابلکہ عمر امین کی مثال ایسے ’’گیلے پٹاخے‘‘ کی ہے جسے سارا دن اس امید پر ’’دھوپ‘‘ میں رکھا جاتا ہے کہ شام کو اس کی ’’گونج‘‘ دکھائی دے گی ۔پاکستان کرکٹ بورڈ اور اس کی مختلف سلیکشن کمیٹیاں گزشتہ دس برسوں سے عمر امین کو اس امید پر دھوپ لگوارہی ہیں کہ شاید کبھی نہ کبھی اس کی پرفارمنس کی گونج سنائی دے اور گاڈ فاڈرز کو بھی کچھ ’’شانتی‘‘ مل جائے!!
Add Comment