کرکٹ

!!سیالکوٹ…ٹیلنٹ کی فیکٹری

اعجاز احمد
زاہد فضل
شعیب ملک
عبدالرحمن
منصور امجد
شکیل عنصر
رضاحسن
حارث سہیل
محمد عباس
بلال آصف
سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے یہ وہ کرکٹرز ہیں جنہوں نے گزشتہ تین عشروں میں انٹرنیشنل کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز کیا اور گزشتہ دس برسوں میں اس فہرست میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جبکہ ڈومیسٹک کرکٹ اور پاکستان کی جونیئر ٹیموں کیلئے کھیلنے والے ’’سیالکوٹی‘‘ کھلاڑیوں کی تعداد ان گنت ہے۔
آسٹریلیا کیخلاف سیریز کے پہلے ٹیسٹ میچ میں سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے بائیں ہاتھ کے بیٹسمین حارث سہیل نے اپنے کیرئیر کی اولین ٹیسٹ سنچری اسکور کی جو مڈل آرڈر میں کھیلتے ہوئے کسی کھبے بیٹسمین کی 28برسوں میں پہلی سنچری تھی۔پھر سیالکوٹ کے قریبی قصبے آلو مہار کے بلال آصف نے ٹیسٹ ڈیبیو پر چھ وکٹیں لینے کا کارنامہ سر انجام دے دیا جبکہ باقی چار وکٹیں محمد عباس نے اپنے نام کرتے ہوئے تمام دس وکٹوں پر سیالکوٹ کا نام لکھ ڈالا!
مجھے پچھلے دو عشروں سے سیالکوٹ کی کرکٹ کی قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملا ہے اور کسی حد تک میں اس کا حصہ بھی رہا ہوں ۔مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ صلاحیت کے اعتبار سے سیالکوٹ کی سرزمین نہایت زرخیز ہے جس نے ہر دور میں لاجواب کرکٹرز پیدا کیے ہیں ۔80ء اور 90ء کی دہائی میں سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے اکثر باصلاحیت کرکٹرز نامناسب مواقع کے باعث آگے بڑھنے میں ناکام رہے جن میں سرفہرست نام مرحوم عامر وسیم کا ہے جنہیں بلا شک و شبہ کسی بھی دور کا بہترین پاکستانی لیفٹ آرم اسپنر کہا جاسکتا ہے ۔
طویل عرصے تک فرسٹ کلاس کرکٹ میں بیٹسمینوں کو اپنی انگلیوں پر نچانے والے عامر وسیم نے اپنے کیرئیر کے آخری حصے میں اس شہر سے باصلاحیت کھلاڑیوں کو پروان چڑھانے کا ذمہ اپنے سر اُٹھا لیا ۔ کبھی وہ شعیب ملک کو ساتھ ساتھ لیے پھر رہے ہوتے کہ اس ’’بچے‘‘ کو کسی ڈیپارٹمنٹ کی ٹیم میں جگہ مل جائے تو کبھی وہ عبدالرحمن کو بالنگ کے گر سکھاتے ہوئے ’’مانے‘‘ کو ٹیسٹ کرکٹ کیلئے تیار کررہے ہوتے۔ کبھی کم سن رضا حسن ان سے بالنگ کی تعلیم لے رہا ہوتا تو کبھی چھوٹے سے منصور امجد کی بطور آل راؤنڈرتیاری ہورہی ہوتی۔ پاکستان کیلئے انڈر19کرکٹ میں کارنامے دکھانے والے بیٹسمین انعام الحق اور ماجد جہانگیر بھی عامر وسیم کے ہاتھوں میں کندن بنے ۔ کبھی آلو مہار کا کھبا پیسر زاہد سعید بس کی چھت پر بیٹھ کر جناح اسٹیڈیم آتا تاکہ عامر وسیم اس کی بالنگ میں نکھا ر لاسکیں ۔2000ء کے انڈر19 ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والا زاہد سعید پاکستان کیلئے ٹیسٹ یا ون ڈے انٹرنیشنل نہیں کھیل سکا لیکن آج اس کا بھتیجا بلال آصف کامیابی کیساتھ ٹیسٹ کیپ اپنے سر پر سجا چکا ہے ۔بلال آصف پر ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب وہ کرکٹ سے دلبرداشتہ ہوکر اور معاشی مسائل سے مجبور ہوکر مزدوری کرنے کیلئے کویت چلا گیا تھا مگر عامر وسیم نے بلال کو دوبارہ کرکٹ کی جانب راغب کیا اور محض چار سال میں بلال آصف کو پاکستان کی طرف سے ون ڈے انٹرنیشنلز کھیلنے کا موقع مل گیا۔ محمد عباس کو جب بھی بالنگ کے حوالے سے کوئی مشکل پیش آئی تو ٹیسٹ فاسٹ بالر نے عامر وسیم کی زبوں حال اکیڈمی کا رخ کیا اور پہلے سے بہتر بالر بن کر واپس آیا۔
عامر وسیم کے ساتھ یا کچھ عرصہ بعد کھیلنے والوں میں حافظ خالد ،طاہر مغل اور شہزاد ملک بھی ایسے نام تھے جنہیں ان کا جائز مقام نہ مل سکا جبکہ آنے والے عرصے میں فیصل نویداورفیصل خان نے پاکستان جونیئرز کی نمائندگی کرنے کے بعد ڈومیسٹک کرکٹ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔ عدنان ظہیر اورفیاض بٹ میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہ تھی جنہوں نے ورلڈ کپ میں پاکستان انڈر19کی نمائندگی کی اور خاص طور پر فاسٹ بالر فیاض بٹ کی بالنگ کو وسیم اکرم نے کھل کر سراہا مگر بدقسمتی سے یہ دونوں کھلاڑی سڑک کے ایک حادثے کے باعث اپنی کرکٹ جاری نہ رکھ سکے۔اسی طر ح ارسلان انور نے بھی پاکستان انڈر19کی نمائندگی کا اعزاز حاصل کیاجبکہ ارسلان کے بڑے بھائی شائیمان انور نے پاکستان میں ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کے بعد یو اے ای کا رخ کیا۔ جارح مزاج بیٹسمین یو اے ای کی طرف سے نا صرف 32 ون ڈے انٹرنیشنلز اور 26ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنلز کھیل چکا ہے بلکہ ٹی20انٹرنیشنلز میں یو اے ای کی طرف سے پہلی سنچری بنانے کا اعزاز بھی شائیمان کو حاصل ہے جبکہ ورلڈ کپ 2015 میں سنچری بنا کر ان مقابلوں میں شائیمان یو اے ای کا واحد سنچری میکر بھی ہے۔
2006ء میں انضمام الحق کی قیادت میں انگلینڈ کا دورہ کرنے والی پاکستانی ٹیم میں شامل شاہد یوسف صلاحیت کے اعتبار سے کسی بھی ٹاپ کلاس بیٹسمین سے کم نہ تھا جس نے کامیابی کیساتھ پاکستان انڈر19کی نمائندگی کی فرسٹ کلاس کرکٹ میں بھی رائٹ ہینڈر عمدہ ریکارڈز کا مالک ہے مگر شاہد یوسف بدقسمتی کی دیوار کو پھلانگ نہ سکا۔آل راؤنڈر علی خان کا شمار بھی ایسے کھلاڑیوں میں ہوتا تھا جو انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کی پوری صلاحیت رکھتے تھے۔اگر حالیہ نوجوانوں کی بات کی جائے تو سیف بدر، علی شفیق اور عبداللہ شفیق تابناک مستقبل کے حامل ہیں جبکہ لیگ اسپنر اُسامہ میر کامیابی کیساتھ ٹی20لیگز میں کھیل رہا ہے اور آل راؤنڈر عماد بٹ ایک مرتبہ قومی ٹیم کیساتھ انگلینڈ کا دورہ کرچکا ہے ۔
سیالکوٹ دنیا بھر میں کھیلوں کا سامان بنانے کے حوالے سے جانا جاتا ہے جہاں ہزاروں چھوٹی بڑی فیکٹریاں یہ سامان تیار کرنے میں مصروف ہیں مگر سیالکوٹ صلاحیت کی بھی فیکٹری ہے کیونکہ گزشتہ چند برسوں میں اس خطے نے تواتر کیساتھ بہترین کرکٹرز پیدا کیے ہیں جو انٹرنیشنل کرکٹ میں نہ صرف پاکستان کا نام روشن کررہے ہیں بلکہ سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے بہت سے کھلاڑی ایسوسی ایٹ ملکوں کیلئے انٹرنیشنل کرکٹ بھی کھیل رہے ہیں ۔ان کھلاڑیوں میں سابق انڈر19کرکٹر انعام الحق قطر کی قومی ٹیم کی کپتانی کررہے ہیں جبکہ اسی ٹیم میں شامل حافظ ندیم اور اویس ملک کا شمار بھی عامر وسیم کے شاگردوں میں ہوتا ہے۔اسی طرح محمد بوٹا اور عثمان مشتاق بھی انٹرنیشنل کرکٹ میں یو اے ای کی نمائندگی کرچکے ہیں۔
ٹیسٹ ڈیبیو سے قبل بلال آصف کو کافی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا تھا ۔ کچھ لوگوں نے 33 سالہ کھلاڑی پر سفارشی کا ٹیگ بھی لگا دیا جبکہ کچھ کو بلال آصف کی عمر پر اعتراض تھا ۔ یہ بالکل درست ہے کہ آف اسپنر کی حیثیت سے کسی بھی طرح وہ ثقلین مشتاق یا سعید اجمل کا ہم پلہ نہیں ہے مگریہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بلال آصف کا تعلق سیالکوٹ سے ہے اور سیالکوٹ میں لگی ’’ ٹیلنٹ کی فیکٹری‘‘سے نکلنے والی کوئی بھی ’’پراڈکٹ‘‘ ہلکی نہیں ہوسکتی!!