کرکٹ

یہ آسٹریلیا کی جیت ہے

اگر پاکستانی بالرز دبئی کی وکٹ پر چوتھے اور پانچویں دن 140اوورز میں آسٹریلیا کی دس وکٹیں حاصل نہیں کرسکتے تو پھر میرے نزدیک اس میچ کا نتیجہ ڈرا نہیں بلکہ یہ آسٹریلیا کی جیت ہے۔
اگرپہلی اننگز میں 280رنز کی برتری حاصل کرنے کے باوجود پاکستانی ٹیم یہ ٹیسٹ میچ نہیں جیت پاتی تو پھر یہ آسٹریلیا کی جیت ہے۔
اگر ناتجربہ کار آسٹریلین بیٹنگ لائن 140 اوورز تک مزاحمت کرتے ہوئے گزشتہ 47 برسوں میں آسٹریلیا کیلئے طویل ترین اننگز کھیلنے میں کامیاب ہوتی ہے توپھر یہ آسٹریلیا کی جیت ہے۔
اگر عثمان خواجہ ساڑھے پانچ گھنٹے کریز پر قیام کے دوران 141رنز کی اننگز کھیل کر ایشیا میں چوتھی اننگز میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے نان ایشین بیٹسمین کا اعزاز اپنے نام کرتا ہے تو پھر یہ آسٹریلیا کی جیت ہے۔
اگر آسٹریلین کپتان ٹیم پین چوتھی اننگز میں 194گیندیں کھیل کر آسٹریلیا کی طرف سے نمبر سات یا اس سے نیچے کھیلنے والے بیٹسمینوں میں میچ بچاتے ہوئے چوتھی اننگز میں سب سے زیادہ بالز کا سامنا کرنے والا بیٹسمین بن جاتا ہے تو پھر یہ آسٹریلیا کی جیت ہے۔
اگر یہ آسٹریلیا کی جیت ہے تو پھر یہ واضح طور پر پاکستان کی ناکامی ہے۔ جو آشنا میدان ،موسم اور کنڈیشنز میں کھیلتے ہوئے پہلی اننگز میں 482رنز بنانے کے بعداور مخالف ٹیم کو 202 رنز پر آؤٹ کرنے کے باوجود میچ اپنے نام نہیں کرسکتی تو یہ پاکستانی ٹیم کی ناکامی ہے جس نے اس میچ میں بہت حد تک منفی کرکٹ کھیلی ہے۔ اگر بیٹنگ کی بات کی جائے تو پہلی اننگز میں پاکستانی ٹیم تین کے رن ریٹ سے بھی اسکور نہ کرسکی حالانکہ پہلے ہی دن پاکستانی بیٹسمینوں کی حکمرانی واضح ہوگئی تھی مگر اس کے باوجو د رنز کی رفتار میں اضافہ نہ کیا جاسکا۔ دوسری اننگز میں پاکستانی بیٹسمینوں نے تیز کھیلنے کی کوشش میں 58اوورز میں چھ وکٹیں ضرور گنوائیں مگر تیزی کا عنصر کہیں دکھائی نہ دیا کیونکہ اس مرتبہ بھی رن ریٹ 3.12سے نہ بڑھ سکا۔
بالنگ میں پاکستانی ٹیم کا تمام تر بھروسہ پرانے گیند پر تھا ۔اسی واسطے وہاب ریاض کو فائنل الیون کا حصہ بنایا گیا کہ وہاب کی خاصیت یو اے ای کی کنڈیشنز میں پرانے گیند کو ’’ریورس‘‘ کرنا ہے مگر طویل عرصے سے فرسٹ کلاس کرکٹ نہ کھیلنے والے وہاب ریاض کیلئے ٹیسٹ میچ کھیلنا مشکل کام ثابت ہوا۔ گزشتہ چار برسوں میں پاکستان کی جیت کا دارومدار یاسر شاہ کی اسپن بالنگ پر رہا مگر دورہ انگلینڈ سے باہر رہنے والے یاسر شاہ کی جادوگری آسٹریلیا کیخلاف دبئی میں دکھائی نہیں دی ۔ پہلی اننگز میں وکٹ سے محروم رہنے والے یاسر شاہ نے دوسری باری میں 44اوورز کرواتے ہوئے چار وکٹیں اپنے نام تو کیں مگر اُس وقت تک کافی دیر ہوچکی تھی۔ پہلی اننگز کے ہیرو بلال آصف کو دوسری اننگز میں کوئی وکٹ نہ ملی جس کی وجہ سے دونوں اینڈز سے آسٹریلین بیٹسمینوں پر دباؤ قائم نہ ہوسکا۔محمد عباس نے میچ میں سات وکٹیں لے کر ایک مرتبہ پھر اپنی صلاحیتوں کا ثبوت پیش کیا مگر مجموعی طور پاکستانی بالرز آسٹریلین بیٹسمینوں پر اس طرح سے حملہ آور نہیں ہوئے جس کی توقع کی جارہی تھی۔
اس ٹیسٹ میچ کے ڈرا ہونے میں جہاں آسٹریلین بیٹسمینوں کی مزاحمت کو پورے نمبرز دینا ہونگے اس کیساتھ ساتھ سرفراز کی وکٹ کیپنگ اور کپتانی نے پاکستانی ٹیم کو بہت حد تک نقصان پہنچایا ہے ۔اہم مواقع پر سرفراز احمد نے اسٹمپنگ چانس اور کیچ چھوڑا جس نے نا صرف بالرز کو بے حوصلہ کیا بلکہ آسٹریلین بیٹسمینوں کو سنبھلنے کا موقع بھی دے دیا۔اس کے علاوہ سرفراز احمد کی دفاعی کپتانی نے آسٹریلین بیٹسمینوں پر دباؤ ختم کردیا۔ پانچویں دن اگر سات وکٹوں کے حصول کیلئے سرفراز احمد دفاعی انداز میں فیلڈنگ میں لیں گے تو پھر کامیابی ملنا اتنا آسان نہیں رہتا اور یہی پاکستانی ٹیم کیساتھ ہوا جس کے بالرز دفاعی فیلڈنگ کے باعث تمام دس وکٹیں لینے میں کامیاب نہ ہوسکے۔
دوسرے ٹیسٹ میچ سے قبل پاکستانی ٹیم اور کپتان کو اپنی سوچ میں تبدیلی لانا ہوگی دبئی ٹیسٹ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ دفاعی حکمت عملی کیساتھ آپ 482رنز بنا کر بھی میچ نہیں جیت سکتے اور منفی سوچ 140اوورز میں بھی 10 وکٹیں لینے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے!