Uncategorized @ur

اوئے ہوئے!!

پاکستانی ٹیم نے ون ڈے سیریز کا ’’بسکٹ‘‘ آدھا چبانے کے بعد پہلے ٹیسٹ میں ایسی پرفارمنس دی کہ منہ سے بے اختیار ’’اوئے ہوئے‘‘ نکل گیا ۔اب پتہ نہیں کہ یہ پاکستانی بیٹسمینوں کی غیر ذمہ دارانہ بیٹنگ ہے یا پھر سیریز کے اسپانسرز کے نام کا اثر ہے کہ کیویز کیخلاف پاکستانی ٹیم نے جیتی ہوئی بازی ہار دی مگر وجہ کوئی بھی ہو پاکستانی ٹیم نے ابوظہبی میں جس قسم کی پرفارمنس دی ہے اس کی توقع تو شاید نیوزی لینڈ کی ٹیم کو بھی نہیں تھی جو تیسرے دن کے اختتام پر بظاہر ہتھیار ڈال چکی تھی کہ پاکستان نے پلیٹ میں رکھ کر میچ نیوزی لینڈ کو پیش کردیا۔
اب دوسرے ٹیسٹ کا وقت ہوگیا ہے اور سیریز کو ’’زندہ‘‘ رکھنے کیلئے پاکستانی ٹیم کیلئے اس ٹیسٹ میچ میں کامیابی حاصل کرنا نہایت ضروری ہے۔ اگر پہلے ٹیسٹ میں گرین شرٹس اور کیویز کی کارکردگی کا موازنہ کیا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کیویز کی خراب پرفارمنس کے مقابلے میں یہ پاکستانی بیٹسمینوں کی لاپرواہی تھی جس نے پاکستان کو صرف چار رنز کے فرق سے فتح کی بجائے شکست کے خانے میں ڈال دیا۔
آخری مرتبہ بھی نیوزی لینڈ کی ٹیم یو اے ای میں پاکستان کیخلاف ٹیسٹ سیریز جیتے کرگئی تھی اور اب بھی نیوزی لینڈ نے پہلا ٹیسٹ جیت کر برتری حاصل کرلی ہے اور پاکستانی ٹیم کیلئے لازم ہے کہ وہ اگلے دونوں ٹیسٹ جیت کر سیریز اپنے نام کرے ورنہ ’’ہوم‘‘ گراؤنڈ میں ایک اور ناکامی سرفراز الیون کا مقدر بن جائے گی۔پہلے ٹیسٹ میں پاکستانی بیٹسمینوں نے جس غیر ذمہ دارانہ بیٹنگ کا مظاہرہ کیا اسے دیکھ کر تو یوں لگتا تھا کہ جیسے اگلے ٹیسٹ میں آدھی ٹیم تبدیل کردی جائے گی مگر اب وہ دن نہیں رہے جب ایسا ہوا کرتا تھا ۔ چاہے یہ طویل المدتی پالیسی ہے یا پھر ٹیم مینجمنٹ کی مجبوری…پاکستانی ٹیم دبئی ٹیسٹ میں بھی کم و بیش انہی کھلاڑیوں کیساتھ اترے گی جن کی موجودگی میں پاکستان کو ابوظہبی میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اسکواڈ میں صرف سعد علی ایسا بیٹسمین ہے جسے ابھی تک فائنل الیون میں شامل نہیں کیا گیا ۔ابھی تک اس بات کا امکان نہیں ہے کہ سعد علی کو دبئی میں ٹیسٹ کیپ دی جائے گی بلکہ پاکستانی ٹیم انہی بیٹسمینوں کیساتھ میدان میں اترے گی جنہوں نے ابوظہبی میں لُٹیا ڈبو دی تھی۔
بیٹسمینوں کے پاس تو ایک سیدھا سادھا سا فارمولا ہے کہ جب اپنی جگہ خطرے میں محسوس ہو تو فوراً ایک قدرے بہتر اننگز کھیل کر اپنی جگہ بچانے کیساتھ ساتھ عوامی ہمدردیاں بھی سمیٹ لی جائیں مگر کپتان سرفراز احمد کو وہ ’’فارمولا‘‘ کب ملے گا جب وہ اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کیساتھ ساتھ ٹیم کو بھی ٹیسٹ کرکٹ میں جیت کی راہ پر ڈال سکیں گے تاکہ ورلڈ کپ میں اُن کی کپتانی بچ جائے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ غیر ذمہ دارانہ شاٹ کھیل کر آؤٹ ہونے کے بعد کپتان نے کسی قسم کی شرمندگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ کوچ کی طرف سے ہونے والے استفسار پر کپتان نے کندھے اُچکاتے ہوئے یہ کہہ کر جان چھڑا نے کی کوشش کی کہ وہ اسی انداز سے بیٹنگ کرتے ہیں۔
سرفراز کے انداز چمپئنز ٹرافی کی جیت تک سب کو بھلے معلوم ہورہے تھے مگر ایشیا کپ میں ناکامی اور ٹیسٹ کرکٹ میں ملنے والی پے درپے شکستوں نے سرفراز کے گرد گھیرا تنگ کردیا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران سے سلیکشن کمیٹی سے زیادہ ہیڈ کوچ مکی آرتھر کے فیصلوں کی اہمیت حاصل رہی ہے اور مکی آرتھر کی نظر کرم سے محروم ہونے والوں کی مشکلات میں اضافہ ہوتا دیکھا گیا ہے۔ سرفراز احمد اور مکی آرتھر دونوں یقینا ایک ہی ’’پیج‘‘ پر تھے مگر ایشیا کپ کی ناکامی نے بطور کپتان سرفراز کے کیرئیر کو شدید دھجکا پہنچایا ہے اور اس کیساتھ ساتھ ’’سیفی‘‘ کا باغیانہ رویہ بھی ہیڈ کوچ کو قطعی پسند نہیں آرہا ۔ اگر کپتان کے یہی چلن رہے اور پاکستانی ٹیم بھی اگلے مہینوں میں ٹیسٹ کرکٹ اور بالخصوص ون ڈے فارمیٹ میں اچھی کارکردگی نہ دکھا پائی تو پھر ممکن ہے کہ اگلے برس انگلش سرزمین پر کھیلے جانے والے ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کسی ’’سابق‘‘ کپتان کی قیادت میں کھیلتی ہوئی دکھائی دے ۔
سرفراز احمد کو چاہیے کہ ابھی سے کمر کس لے کیونکہ اگر پانی سر سے گزر گیا تو پھر یقینا اگلے مہینوں میں بورڈ کی طرف سے ہونے والے کسی بڑے ’’فیصلے‘‘ کے ردعمل میں پاکستانی شائقین کے منہ سے اوئے ہوئے ضرور نکلے گا!!