ہاکی

شاندار ماضی کی جھلک،حال میں کیسے ممکن؟

پاکستان کا قومی کھیل ہاکی ہے اور ماضی میں پاکستانی ہیروز نے ہاکی کے ہر میدان میں سبز ہلالی پرچم لہرایا اور دنیا بھر میں پاکستان کو روشناس کروایا۔ پہلے آٹھ ورلڈ کپ مقابلوں میں پاکستان نے چھ مرتبہ فائنل تک رسائی حاصل کی اور چار مرتبہ ٹائٹل اپنے نام کیا جو ورلڈ کپ مقابلوں کی تاریخ میں کسی بھی ٹیم کی طرف سے سب سے زیادہ ٹائٹل جیتنے کا عالمی ریکارڈ ہے مگر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اگلے چار مقابلوں میں پاکستانی ٹیم ایک مرتبہ بھی سیمی فائنل تک رسائی حاصل نہ کرسکی جبکہ 2010ء کے ایونٹ میں پاکستان کو آخری پوزیشن پر اکتفا کرنا پڑا اورپھر 2014ء میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ مقابلوں کیلئے کوالیفائی بھی نہ کرسکی۔ماضی کی ٹاپ ٹیم کیلئے یہ لمحہ فکریہ تھا کہ ورلڈ کپ کا تصور پیش کرنے والے ملک کی ہاکی ٹیم ان مقابلوں سے ہی آؤٹ ہوگئی۔
2018ء کے عالمی کپ مقابلوں میں پاکستانی ٹیم کوالیفائی کرنے میں کامیاب رہی ہے اور آج گرین شرٹس بھارتی سرزمین پر منعقدہ ورلڈ کپ میں اپنا پہلا میچ جرمنی کیخلاف کھیل رہی ہے۔ ماضی کی نمبر ایک ٹیم اس وقت عالمی رینکنگ میں 13ویں پوزیشن کیساتھ شریک ہورہی ہے ۔ عہد رفتہ کی شان شوکت اب ماضی کا قصہ بن چکی ہے اور حالیہ عالمی کپ میں اس کے قریب پہنچنا بھی شاید گرین شرٹس کیلئے مشکل ہو کیونکہ ماضی میں جو ملک سے پاکستان سے ہاکی سیکھ رہے تھے آج و ہ عالمی ہاکی میں پاکستان سے کہیں آگے نکل چکے ہیں۔
گزشتہ دنوں پاکستان ہاکی فیڈریشن کے دفتر جانے کا اتفاق ہوا اور نیشنل ہاکی اسٹیڈیم ویمن چمپئن شپ کا میچ دیکھتے ہوئے ذہن 24برس پیچھے چلا گیا جب اسی نیشنل اسٹیڈیم میں ہزاروں تماشائیوں کی موجودگی میں پاکستانی ٹیم نے ورلڈ کپ کا فائنل کھیلا تھا اگرچہ پاکستان کو اس مقابلے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا مگر یہ پاکستان ہاکی کا عروج تھا جس نے بہت سے نوجوانوں کو اس کھیل کی جانب راغب کردیا تھا اور اسکول کے طالب علم کی حیثیت سے یہ میرا ہاکی سے پہلا تعارف بھی تھا اور جب چار برس بعد پاکستان نے سڈنی میں عالمی کپ جیتا تو اس میچ کے آخری لمحات کلاس سے غائب ہوکر اسکول کی صفائی کرنے والے جوڑے کے کواٹر میں بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی پر دیکھنا مجھے آج بھی یاد ہے جس کے بعد ہاکی کے ہر کھلاڑی کے سر پر شہباز بننے کی دھن سوار تھی…مگر پی ایچ ایف کے سیکرٹری شہباز احمد سے جب ملاقات ہوئی تو وہ ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی کارکردگی کے حوالے سے کوئی ٹھوس بات نہ کرسکے بلکہ اُن کا اور دیگر آفیشلز کا زیادہ بھروسہ دعاؤں اور دوسری ٹیموں کی طرف سے خراب کارکردگی کی توقعات پر تھا۔
حالیہ برسوں میں پاکستان کی ہاکی ٹیم کی کارکردگی اور آفیشلز کی سردمہری پر دل دُکھی ضرور ہے مگر ورلڈ کپ مقابلوں میں ایک مرتبہ پھر دل پاکستانی ٹیم کیلئے دھڑک رہا ہے جس کی ایک وجہ اس کھیل سے جذباتی وابستگی ہے اور پھر ہماری نسل کے لوگوں نے اس کھیل میں پاکستان کا عروج دیکھا ہوا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہر مرتبہ پاکستانی ٹیم کو کھیلتا ہوا دیکھ دل سے کامیابی کی دعا نکلتی ہے مگر ان دعاؤں کیساتھ ساتھ میدان میں عمدہ کارکردگی کی بھی ضرورت ہے جس کیلئے ہاکی فیڈریشن نے کچھ خاص اقدامات نہیں کیے۔
ہاکی ورلڈ کپ میں قومی ٹیم سے کسی ’’چمتکار‘‘ کی توقع نہیں کی جاسکتی کیونکہ زمینی حقائق یہی ہیں کہ دیگر ٹیموں کے مقابلے گرین شرٹس کافی پیچھے ہے مگر پاکستانی ٹیم گروپ مرحلے میں بہتر منصوبہ بندی کیساتھ کھیلتے ہوئے باآسانی کواٹر فائنل تک رسائی حاصل کرسکتی ہے اور اگر گرین شرٹس اس مرحلے تک پہنچ گئے تو پھر یہ ٹیم کسی کو بھی پچھاڑ سکتی ہے!