خبریں کرکٹ

جنید خان جائز مقام سے محروم

صلاحیت اپنی جگہ مگر کرکٹ کے کھیل میں قسمت کا بہت عمل دخل ہے ۔کئی باصلاحیت کھلاڑی بدقسمتی کا شکار ہوکر گمنامی کے اندھیروں میں گم ہوگئے جبکہ قسمت کی دیوی نے کچھ کو سپر اسٹارز بنا دیا۔
جنید خان کا شمار بھی بہت حد تک بدقسمت کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جس نے متعدد مرتبہ اپنی پرفارمنس سے پاکستان کو کامیابی دلوائی مگر بائیں ہاتھ کا فاسٹ بالر کبھی فٹنس مسائل کا شکار ہوا، کبھی کپتان اور کوچ نے اس پر اعتماد نہیں کیا ، کبھی وہ سلیکٹرز کی گڈ بکس سے باہر ہوگیا اور کبھی اپنے ہی بیانات نے جنید خان کو مشکلات سے دوچار کردیا ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اپریل 2011ء میں ون ڈے انٹرنیشنلز ڈیبیو کرنے والا جنید خان اس عرصے میں کسی بھی دوسرے پاکستانی فاسٹ بالر سے زیادہ وکٹیں لینے کے باوجود قومی ٹیم میں اپنی جگہ پکی نہ کرسکے اور اس کو وہ مقام نہ مل سکے جو محمدعامر اور حسن علی کو حاصل ہے۔
جنید خان نے ون ڈے انٹرنیشنلز میں اب تک 104وکٹیں 27.84کی اوسط ، 5.22 کے اکانومی ریٹ اور 31.9کے اسٹرائیک ریٹ سے حاصل کی ہیں اور اس عرصے میں صرف چار فاسٹ بالرز مچل اسٹارک ، ٹرینٹ بولٹ، مورنے مورکل اور ڈیل اسٹین نے اوسط، اکانومی اور اسٹرائیک ریٹ کے حوالے سے جنید خان سے بہتر کارکردگی دکھائی ہے مگر دنیا بھر میں پانچواں بہترین فاسٹ بالر اور پاکستان کیلئے سب سے زیادہ وکٹیں لینے پیسر آج بھی قومی ٹیم میں جگہ بنانے کیلئے جدوجہد کا شکار ہے۔

https://twitter.com/junaidkhanreal/status/1082946898875596800?s=12

اگر آخری دو برسوں کی بات کریں تو حسن علی کی 64وکٹوں کے بعد ون ڈے فارمیٹ میں جنید خان نے دیگر پاکستانی پیسرز کے مقابلے میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کی ہیں۔ اس عرصے میں جنید خان نے 146.5 اوورز میں 26وکٹیں 28.80کی اوسط اور 5.10کے اکانومی ریٹ سے حاصل کی ہیں جبکہ جنید خان کا اسٹرائیک ریٹ 33.8رہا۔ دوسری جانب محمد عامر نے اس دوران 178.3 اوورز میں22وکٹیں 41.52کی بھاری اوسط سے حاصل کی ۔ عامر کا اکانومی ریٹ (4.88) جنید خان سے بہتر رہا مگر 51کا اسٹرائیک ریٹ یہ ثابت کررہا ہے کہ محمد عامر کو وکٹوں کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
2013ء میں بھارت میں جنید خان کی بالنگ کو کون بھول سکتا ہے جب کھبے پیسر نے تین میچز میں آٹھ وکٹیں لے کر پاکستان کو تاریخی کامیابی دلوائی جبکہ اسی سال ویسٹ انڈیز اور سری لنکا کیخلاف سیریز کی فتوحات میں جنید خان کا مرکزی کردار تھا۔اگر حالیہ عرصے کی بات کریں تو 2017ء کی چمپئنز ٹرافی میں جنید خان نے 19.37کی اوسط سے 8وکٹیں لے کر پاکستان کی ٹائٹل فتح میں اپنا کردار نبھایا تھا جبکہ ایشیا کپ میں ملنے والے واحد موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے جنید خان نے بنگلہ دیش کیخلاف 4/19کی کارکردگی رجسٹرڈ کروائی مگر نیوزی لینڈ کیخلاف سیریز میں ہونے والے فٹنس مسائل نے جنید خان کو دورہ جنوبی افریقہ سے باہر کردیا حالانکہ نیوزی لینڈ کیخلاف سیریز کو دو ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس عرصے میں جنید نے ڈومیسٹک کرکٹ کھیل کر اپنی فٹنس ثابت کرنے کی کوشش بھی کی۔

https://twitter.com/farhanwrites/status/1083094879834685440?s=08

 

سوال وہی ہے کہ اگر جنید خان کی جگہ کوئی دوسرا بالر فٹنس مسائل کا شکار ہوتا تو شاید اسے جنوبی افریقہ میں ٹیم کیساتھ رکھتے ہوئے اس کے مکمل فٹ ہونے کا انتظار کیا جاتا مگر جنید خان کے معاملے میں تجربہ کار فاسٹ بالر کو کوئی رعایت نہیں دی جاتی۔جنوبی افریقہ کے ٹور میں ٹیسٹ ٹیم میں ایسے کھلاڑیوں کو بھی شامل کیا گیا جو مکمل طور پر فٹ نہیں تھے مگر جنید خان کو ون ڈے ٹیم سے یہ کہہ کر ڈراپ کردیا گیا ہے کہ انہیں اپنی فٹنس کیساتھ ساتھ بالنگ پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔یہ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ جو بالر ایشیا کپ میں ایک میچ کھیل کر چار وکٹیں حاصل کرتا ہے اسے بالنگ میں بہتری درکار ہے مگر جو بالرز پورا سال واجبی سی کارکردگی دکھاتے رہے وہ سلیکشن کمیٹی کیلئے آٹومیٹک چوائس بن جاتے ہیں!
جنید خان وہ بالر ہے جس نے یو اے ای کی گرمی میں اُس وقت پاکستانی پیس اٹیک کا بوجھ اپنے کندھوں پر اُٹھایا جب دو ’’نامور‘‘ فاسٹ بالرز اپنے گلے میں بدنامی کا طوق ڈال کر قومی ٹیم سے دور ہوچکے تھے۔مشکل وقت میں پاکستانی پیس اٹیک کی قیادت کرنے والے جنید خان کو وہ جائز مقام اور احترام نہیں دیا گیا جس کا وہ مستحق ہے اور انٹرنیشنل کرکٹ میں آٹھ سال گزارنے کے بعد بھی جنید خان قومی ٹیم میں واپسی اور خود کو منوانے کی کوششوں میں مصروف ہے جو یقینی طور پرپاکستان کرکٹ کیلئے ایک افسوس کی بات ہے۔

Add Comment

Click here to post a comment