کرکٹ

سلیکشن کا معیار کیا ہے؟

ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے کہ سلیکشن کمیٹی ، ہیڈ کوچ اور کپتان کی فہرست میں چند ایک کھلاڑی ہی پسندیدہ ہیں جنہیں تینوں فارمیٹس میں موقع ملتا ہے جبکہ اس فہرست میں شامل نہ ہونے والے کھلاڑی محدود مواقع پر عمدہ کارکردگی دکھانے کے باوجود مستقل طور پر قومی ٹیم کا حصہ نہیں بن سکتے۔
جنوبی افریقہ کے دورے کیلئے جس ٹیسٹ ٹیم کا سلیکشن ہوا وہ ایک الگ موضوع ہے لیکن ون ڈے ٹیم کا انتخاب کرتے ہوئے سلیکشن کمیٹی نے اپنی روایت برقرار رکھی ہے۔نیوزی لینڈ کیخلاف ون ڈے سیریز میں قومی اسکواڈ میں موجود حارث سہیل(انجرڈ)، جنید خان اور آصف علی کو ڈراپ کردیا گیا ہے جبکہ محمد عامر، شان مسعود،محمد رضوان اور حسین طلعت کو 16رکنی ٹیم کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔
نیوزی لینڈ کیخلاف صرف ایک میچ کھیلنے والے جنید خان کو فٹنس مسائل کی بنیاد پر ڈراپ کردیا ہے جنہوں نے ایشیا کپ میں بھارت کیخلاف چار وکٹوں کی عمدہ پرفارمنس کیساتھ اپنی واپسی کی تھی۔ نیوزی لینڈ کیخلاف سیریز کے بعد جنید خان نے قومی ٹی20کپ میں پانچ میچز میں حصہ لیتے ہوئے اپنی فٹنس کا ثبوت پیش کیا مگر اس کے باوجود جنید خان قومی سلیکٹرز کے معیار پر پورا نہیں اُتر سکے۔مگر دوسری جانب سال 2018ء میں 10ون ڈے انٹرنیشنلز کے دوران صرف تین وکٹیں لینے والے محمد عامر کو چیف سلیکٹر نے ٹیسٹ سیریز میں ’’عمدہ‘‘ کارکردگی کے باعث ون ڈے ٹیم کیلئے ’’آٹو میٹک‘‘ چوائس قرار دیا۔جنید خان کو دو ماہ پہلے کھیلی گئی سیریز کی فٹنس کی بنیاد پر ون ڈے ٹیم سے ڈراپ کردیا جاتا ہے جس نے قومی ٹی20 کپ میں اپنی فٹنس کا ثبوت بھی پیش کیا مگر دوسری جانب ون ڈے فارمیٹ میں ناکام کارکردگی کے باوجود محمد عامر کو ٹیسٹ کرکٹ میں بہتر پرفارمنس کی بنیاد پر ون ڈے میں جگہ دے دی جاتی ہے۔
شان مسعود ڈومیسٹک ون ڈے میچز میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے مگر بائیں ہاتھ کے اوپنر کو ون ڈے ٹیم کے قریب نہیں آنے دیا جاتا۔پھر اچانک محمد حفیظ کو ڈراپ کرنے کیلئے شان مسعود کو ایشیا کپ کی ٹیم میں شامل کرلیا جاتا ہے اور موقع دیے بغیر ڈراپ بھی کردیا جاتاجس کے بعد اب دوبارہ شان مسعود کو ون ڈے کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔یہاں بھی سلیکشن کمیٹی کی کوئی واضح پالیسی دکھائی نہیں دیتی کہ کس بنیاد پر شان مسعود کو پہلے منتخب کیا گیا ، پھر ڈراپ کیا گیا اور اب دوبارہ سیلیکٹ کرلیا گیا ہے۔
آصف علی نے آٹھ اننگز میں 28.57 کی اوسط اور130.71کے اسٹرائیک ریٹ سے 200رنز بنائے جس میں ایک نصف سنچری بھی شامل ہے مگر اب آصف علی کو ڈراپ کرکے حسین طلعت کو ٹیم میں جگہ دی گئی ہے جس کا جواز ایمرجنگ کپ اور قومی ٹی20کپ میں اچھی پرفارمنس ہے۔محمد رضوان کو پاکستان کیلئے آخری ون ڈے کھیلے دوسال کا عرصہ بیت چکا ہے ۔اس دوران محمد رضوان کو متعدد ٹورز کروائے گئے ، پاکستان اے اور ایمرجنگ ٹیموں کا کپتان بھی بنایا گیا اور ان تمام میچز میں عمدہ کھیل پیش کرنے کے باوجود محمد رضوان دو سال سے پاکستان کیلئے کوئی انٹرنیشنل میچ نہیں کھیل سکا۔ رضوان کو محض سرفراز احمد کے بیک اَپ کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے جبکہ محمدرضوان وائٹ بال کرکٹ میں بطور بیٹسمین بھی پاکستان کی کارآمد ثابت ہوسکتا ہے مگر دائیں ہاتھ کے مڈل آرڈر بیٹسمین اور وکٹ کیپر کو ٹیم کیساتھ تو رکھا جاتا ہے مگر موقع نہیں دیا جارہا ہے۔
پسند و ناپسند ہمیشہ سے مختلف سلیکشن کمیٹیوں کا مسئلہ رہا ہے لیکن جب سلیکشن معیار کا صرف پسندیدہ کھلاڑیوں کو ہی موقع دینا ہے تو پھر بگاڑ پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے اور 2018 ء میں پاکستانی ٹیم کی ون ڈے پرفارمنس اس کی بڑی مثال ہے!

Add Comment

Click here to post a comment