پی ایس ایل 2018-19 کرکٹ

پاکستان سپرلیگ فور۔۔۔ آٹھ میچز کا انعقاد انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کیلئے کتنا مدد گار ثابت ہوگا ؟

گزشتہ دنوں 3 مارچ کے دن یاد آیا کہ دس برس قبل 3 مارچ کو ہی پاکستان کے دورہ پر آئی سری لنکن کرکٹ ٹیم کو لاہور کے لبرٹی گول چکر میں دہشت گردوں نے نشانہ بنایا جس کے نقصانات اب تک پاکستان کرکٹ کو برداشت کرنے پڑ رہے ہیں۔ سپرلیگ کا چوتھا ایڈیشن جاری ہے اور آخری آٹھ میچز کراچی میں ہونے جارہے ہیں جو کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ شہرقائد میں سپرلیگ کی تمام 6 ٹیمیں ایکشن میں ہونگی جس کیلئے پی سی بی اور سکیورٹی ادارے بین الاقومی معیار کے انتظامات کرنے میں مصروف ہیں۔ کراچی نے اس سے قبل 2008 میں ایشیا کپ کی میزبانی کی تھی جس میں 6 ٹیموں کو شہر میں ٹھہرایا گیا تھا، اب سپرلیگ کیلئے پی سی بی نے دو ہوٹل بک کرائے ہیں جبکہ ایک ہوٹل میچ آفیشلز کیلئے بک کرایا گیا ہے۔ بین الاقومی کرکٹ سکیورٹی ایکسپرٹس کی کراچی میں ہونیوالے انتظامات پر گہری نظر ہوگی کیونکہ کراچی میں ہونیوالے 8 میچز کیلئے ٹیموں کا ہوٹل سے نکل کر سٹیڈیم جانا اور پھر سٹیڈیم میں شائقین کے جم خفیر کی حفاظت کرنے کا چیلنج بھی درپیش ہوگا۔ حکومت سندھ اور سکیورٹی ادارے پاکستان ویسٹ انڈیز سیریز کے تین میچز جبکہ گزشتہ سال سپرلیگ کے فائنل میں شاندار انتظار کرکے اپنے پروفیشنل ازم کا مظاہرہ کرچکے ہیں اس لیے اب ہونیوالے آٹھ میچز کا ڈسپلن کے ساتھ انعقاد یقینی دکھائی دے رہا ہے۔ لاہور میں ہونیوالے تینوں مقابلے کراچی کو سونپ دئیے گئے کیونکہ پی سی بی کیلئے دو شہروں میں پراڈکشن سامان انسٹال کرنا مشکل تھا۔ یو اے ای میں پراڈکشن شعبے میں زیادہ تر بھارتی کام کررہے تھے ، حالانکہ آئی ایم جی گروپ کی جانب سے ایونٹ چھوڑ جانے کے باوجود آؤٹ سورس سٹاف کام کرتا رہا مگر جب پاکستان جانے کی باری آئی تو بھارتی سٹاف نے ہاتھ کھڑے کردئیے۔ کرکٹ بورڈ کو کراچی میں ہونیوالے میچز کیلئے پراڈکشن کیلئے انگلینڈ اور ساؤتھ افریقہ کی کمپنیوں سے رابطہ کرنا پڑا جس کے بعد پی سی بی لاہور میں ہونیوالے میچز سے دستبردار ہونے پر مجبور ہوا۔ پی سی بی نے آخری دم تک کوشش کی کہ لاہور سے میزبانی نہیں لی جائے مگر پراڈکشن مسائل نے پی سی بی کو یہ کڑوا گھونٹ پینے پر مبجور کیا۔
ایک بات تو طے ہے کہ سپرلیگ کے پاکستان میں ہونیوالے 8 میچز پاکستان کرکٹ کے مستقبل کی راہ کا تعین کرینگے، ان میچز کی کامیابی پی سی بی بین الاقومی سطح پر کیش کروائے گا اور اس سے انٹرنیشنل ٹیموں کو پاکستان واپس لانے میں مدد ملے گی۔ شائقین سے کھچا کھچ بھرا نیشنل سٹیڈیم بین الاقومی میڈیا کی بھی توجہ حاصل کریگا اور اس سے بڑھ کر کراچی سفر کرنے والے غیر ملکی کرکٹرز بھی پاکستان کا کیس لڑیں گے۔ اس سے پہلے بھی ڈیرن سیمی سمیت غیر ملکی سٹارز نے دیگر غیر ملکی پلیئرز کو راضی کرنے میں اہم رول پلے کیا تھا۔ اس بار بھی مثبت نتائج کی توقعات ہیں۔
لاہور قلندرز کے جنوبی افریقی سٹار اے بھی ڈی ویلیئرز انجری کا شکار ہوگئے ہیں اور وہ پاکستان میں ہونیوالے میچز میں شرکت سے دستبردار ہوگئے ہیں۔ مگر دوسری جانب کوئٹہ کے سپرسٹار شین واٹسن نے اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان کا سفر کرینگے اور اپنی ٹیم کی نمائندگی کرینگے۔ واٹسن اس سے پہلے تینوں ایڈیشن میں پاکستان کا سفر کرنے سے انکار کرچکے ہیں تاہم اس بار کوئٹہ ٹیم انتظامیہ واٹسن کو راضی کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے جبکہ نیوزی کے سٹار اوپنر کولن منرو بھی پاکستان کا سفر کرنے پر راضی ہوگئے ہیں۔ غیر ملکی سٹارز کی پاکستان آمد سے دنیا کو پاکستان کے بارے میں اپنی رائے تبدیل کرنا پڑیگی اور اس کا پاکستان کرکٹ کو بے حد فائدہ ہوگا۔