کرکٹ

جب دنیا ہمارے قدموں میں تھی!

27برس قبل25مارچ کے دن پاکستانی ٹیم نے میلبورن کے تاریخی میدان پر تاریخ رقم کرتے ہوئے دنیا کو بتا دیا کہ ہم ’’فاتح عالم‘‘ ہیںاور 92ء کی یہ کامیابی آج بھی جسم و جاں میں سنسنی پیدا کردیتی ہے۔
ورلڈ کپ 92ء کی جیت سے آج بھی ہزاروں لاکھوں پاکستانیوں کی خوبصورت یادیں وابستہ ہیں کیونکہ سبز وردی میں ملبوس 14 کھلاڑیوں نے ناممکن کو ممکن بنادیا تھا۔
آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کھیلے گئے ورلڈ کپ کے آغاز پر کچھ بھی پاکستان کے حق میں نہ تھا۔ ورلڈ کپ سے قبل وارم اَپ میچز میں گرین شرٹس کو بری طرح شکستوں نے جکڑ لیا۔ کئی اہم کھلاڑی فٹنس مسائل سے دوچار تھے۔ کچھ باصلاحیت کھلاڑیوں کو سلیکشن کمیٹی نے نظر انداز کردیا تھا۔عبدالقادر پر اقبال سکندر کو ترجیح دی گئی،زاہد فضل کیلئے سعید انور کو نظر انداز کیا گیا ، توصیف احمد اور سلیم جعفر جیسے بولرز اسکواڈ میں جگہ نہ بنا پائے اور وسیم حیدر جیسے گمنام کھلاڑی کو ورلڈ کپ کھیلنے کا موقع مل گیا جبکہ وقار یونس میگا ایونٹ سے پہلے ان فٹ ہوکر وطن واپسی پر مجبور ہوگئے۔
ویسٹ انڈیز سے پہلا میچ 10وکٹوں سے ہارنے کے بعد پاکستانی ٹیم نے زمبابوئے کو زیر کیا مگر اس کے بعد گرین شرٹس جیت کیلئے ترس گئی۔ انگلینڈ کیخلاف پاکستانی ٹیم صرف74رنز پر ڈھیر ہوئی لیکن بارش نے پاکستان کو ایک پوائنٹ دلوادیا۔ جنوبی افریقہ اور بھارت نے پاکستان کو شکست دی تو آدھا ٹورنامنٹ ختم ہوچکا تھا اور پاکستانی ٹیم پوائنٹس ٹیبل پر آٹھویں نمبر پر تھی۔ ٹیم کے کھلاڑی یہ جان چکے تھے کہ ورلڈ کپ میں اُن کا سفر ختم ہوچکا ہے اور پاکستان میں بھی ٹیم کے ’’استقبال‘‘ کی تیاری شروع ہوچکی تھی مگر کپتان عمران خان کو یقین تھا کہ اُن کی ٹیم ورلڈ کپ جیت کر ہی وطن واپس آئے گی۔
11مارچ کو میزبان آسٹریلیا کو شکست دے کر پاکستانی ٹیم نے ورلڈ کپ میں رہنے کا جواز پیدا کرلیا جس کے بعد سری لنکا اور پھر ناقابل شکست نیوزی لینڈ کو شکست دے کر پاکستانی ٹیم سیمی فائنل میں پہنچ گئی۔ ناک آؤٹ مرحلے پر انضمام الحق کی غیر معمولی اننگز نے نیوزی لینڈ کو دوسری مرتبہ شکست دیتے ہوئے پاکستان کو پہلی مرتبہ فائنل کھیلنے کا اعزاز دلوادیا اور پھر 25مارچ کو دنیا نے دیکھا کہ عمران خان کے ’’کارنرڈ ٹائیگرز‘‘ پوری قوت سے میلبورن میں دھاڑے اور عمران ،میانداد کی ذمہ داری بیٹنگ کے بعد انضمام اور وسیم کے لاٹھی چارج نے پاکستان کو 249کا مجموعہ دلوایا جس کے بعد وسیم اکرم کی دو جادوئی گیندوں نے پاکستان کو پہلی مرتبہ ورلڈ چمپئن بنوادیا۔
92ء کاورلڈ کپ جیتنا کسی معجزے سے کم نہ تھا اور پھر اس جیت نے پاکستان کرکٹ کی سمت تبدیل کردی۔اگر پاکستان 92ء کا ورلڈ کپ نہ جیتتا تو شاید پاکستان میں کرکٹ کا جنون خاتمے کے قریب پہنچ جاتااور کرکٹ کی اگلی نسل تیار نہ ہوپاتی۔ہر گھر میں فاتح عالم کھلاڑیوں کے پوسٹرز دکھائی دینے لگے۔ ہر ٹین ایجر وسیم، عاقب، مشتاق، انضمام بننے کے جنون میں مبتلا ہوگیا۔ قوم کو نئے ہیروز مل چکے تھے۔ نوجوانوں کی اکثریت کرکٹ کی جانب راغب ہوچکی تھی اور پاکستان میں اس کھیل کے عروج کا نیا دور شروع ہوچکا تھا۔
لگ بھگ تین عشروں میں پاکستانی ٹیم دوسری مرتبہ ون ڈے کا ورلڈ کپ نہیں جیت سکی اور اب چند ماہ بعد انگلینڈ میں ایک مرتبہ کرکٹ کا عالمی میلہ سجنے جارہا ہے ۔ دو برس قبل پاکستانی ٹیم نے انگلش میدانوں پر چمپئنز ٹرافی میں اپنی کامیابی کا جھنڈا گاڑا تھا اور 2017ء میں بھی پاکستانی ٹیم کے حالات 92ء کی ٹیم سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھے مگر کامیابی نے گرین شرٹس کے قدم چومے ۔ اب بھی یہ امید بہت زیادہ روشن ہے کہ جب14جولائی کو لارڈ کے تاریخی میدان پر ورلڈ کپ کے فائنل کی آخری گیند پھینکی جائے گی تو دنیا گرین شرٹس کے قدموں میں ہوگی!!

Add Comment

Click here to post a comment