کرکٹ

کیا ملا شکست سے؟

معروف شاعرہ نوشی گیلانی کی ایک نظم ہے جس کا عنوان ہے ’’کیا ملا محبت سے‘‘جس کا پہلا بند کچھ یوں ہے…
خواب کی مسافت سے
وصل کی تمازت سے
روز و شب کی ریاضت سے
کیا ملا محبت سے؟
پاکستان کی ’’سیکنڈاسٹرنگ‘‘ ٹیم نے آسٹریلیا کیخلاف ون ڈے سیریز میں جس ’’تیسرے درجے‘‘ کی کارکردگی دکھائی ہے اس پر یہی سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ
پانچ میچ کی مشقت سے
سلیکشن کی جدت سے
غیر یقینی کی لذت سے
کیا ملا شکست سے؟
کیا پانچ میچز کی اس سیریز کے تمام میچز میں ناکامی سے وہ ’’مقاصد‘‘ پورے ہوگئے ہیں جن کا ’’خواب‘‘ اس سیریز سے پہلے دیکھا گیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ٹیم کا انتخاب کرتے ہوئے چیف سلیکٹر انضمام الحق کا کہنا تھا کہ اہم کھلاڑیوں کی غیر موجودگی کے باوجود یہ ٹیم کمزور نہیں ہے اور نئے کھلاڑیوں کی اکثریت پر مشتمل یہ ٹیم کینگروز کے سامنے ترنوالہ ثابت نہیں ہوگی۔ اگر کاغذ پر دیکھا جائے تو یہ ٹیم اتنی بھی گئی گزری نہیں تھی کہ کینگروز کے سامنے اس طرح ڈھیر ہوجاتی لیکن منصوبہ بندی کے بغیر کھیلنے والی اس ٹیم نے پانچوں میچز میں کسی قسم کا فائٹ بیک کیے بغیر یہ سیریز گنوادی ۔
پاکستانی ٹیم کی یہ کارکردگی مایوس کن ہے اور مایوسی کا سبب صرف شکست نہیں ہے بلکہ بینچ اسٹرینٹھ کی ’’کمزوری‘‘ ہے ۔دنیا کی تمام بڑی ٹیمیں مختلف سیریزوں میں اہم کھلاڑیوں کو آرام دیتے ہوئے نئے کھلاڑیوں کو آزماتی ہیں مگر اس قدر مایوس کن پرفارمنس اُن ٹیموں کا مقدر نہیں بنتی جو کینگروز کیخلاف پاکستانی ٹیم کے حصے میں آئی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی سلیکشن کمیٹی اس سیریز سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتی تھی اور وہ ان مقاصد میں کس قدر کامیاب ہوئی ہے؟ سیریز کے دوران کپتان شعیب ملک نے یہ ’’واضح‘‘ کیا کہ اس سیریز کا مقصد کامیابی حاصل کرنا بلکہ نئے کھلاڑیوں کو چانس دینا ہے۔ اگر مقصد یہ تھا تو پھر کسی قسم کا واویلا مچانے کی ضرورت نہیں ہے اور جس طرح سلیکشن کمیٹی ’’اطمیان‘‘ سے بیٹھی ہوئی ہے بالکل اسی طرح کا اطمینان پاکستانی شائقین ، سابق کھلاڑیوں اور میڈیا کو بھی مل جانا چاہیے۔
اگر ورلڈ کپ سے پہلے آسٹریلیا کیخلاف سیریز کا مقصد نئے کھلاڑیوں کو چانس دینا تھا تو یہ بھرم بھی ٹوٹ گیا ہے کہ پاکستان کے پاس ون ڈے فارمیٹ میں بینچ پر بھی اتنے ہی اچھے کھلاڑی موجود ہیں کہ جتنے اچھے کھلاڑی حتمی الیون کا حصہ ہیں۔ سلیکشن کمیٹی کا مقصد اس سیریز سے نئے کھلاڑیوں کی تلاش تھی تاکہ ون ڈے ٹیم کو مزید مضبوط بنایا جائے مگر اب یہ مضبوطی ہوا ہوگئی ہے اور فرسٹ الیون میں موجود اُن کھلاڑیوں کی جگہ ’’پکی‘‘ ہوگئی ہے جو ماضی قریب میں اوسط درجے کی کارکردگی کے باعث اس ٹیم میں ڈانواڈول ہورہے تھے۔
اس سیریز میں کھلاڑیوں نے انفرادی کارکردگی پر توجہ دینے کی کوشش کی ہے۔ بولنگ کو اگر مکمل طور پر ناکام کہا جائے تو غلط نہ ہوگا جبکہ بیٹنگ میں واضح طور پر دکھائی دیا کہ کچھ کھلاڑی ٹیم میں اپنی جگہ پکی کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیںجس کے نتیجے میں انفرادی پرفارمنس ضرور دکھائی دی لیکن ٹیم ورک دور دور تک دکھائی نہ دیا۔
کیا محمد رضوان کی دو سنچریوں کو اس سیریز کا حاصل سمجھا جائے یا پھر عابد علی کو سیریز کی ’’دریافت‘‘ قرار دیا جائے؟گزشتہ چند برسوں سے تمام مراحل کامیابی سے طے کرنے والے عابد علی نے انٹرنیشنل کرکٹ میں پرفارم کرکے اپنی صلاحیتوں کا ثبوت دیا ہے جبکہ رضوان نے بھی یہ ثابت کیا کہ اگر وکٹ کیپر بیٹسمین کو بیٹنگ میں مناسب مواقع دیے جائیں تو وہ دونوں شعبوں میں عمدہ کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ اگر سلیکشن کمیٹی کیلئے ان دونوں کھلاڑیوں کی کارکردگی ’’بڑی‘‘ ہے تو پھر ان دونوں کو آنے والے ہفتوں میں بڑے ایونٹ میں موقع بھی دیا جائے اور اگر ایسا نہیں کیا جاسکتا تو پھر اس سیریز سے کچھ حاصل بھی نہیں ہوا۔
اگر آسٹریلیا کیخلاف سیریز کا مقصد صرف اہم کھلاڑیوں کو آرام کروانا تھا تو پھر یہ آرام ’’روٹیشن پالیسی‘‘ پر بھی کروایا جاسکتا تھا تاکہ اس طرح عبرت ناک شکست قومی ٹیم کا مقدر نہ بنتی۔
شائقین کرکٹ بھی یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ کیا ملا شکست سے؟
نئے کھلاڑیوں کی کھوج؟
بینچ اسٹرینتھ کی آزمائش؟
یا پھر
اس سوال کا تلخ مگر صحیح جواب یہی ہے کہ آسٹریلیا کیخلاف شکست سے ایک بدترین ناکامی پاکستانی ٹیم کے حصے میں آئی ہے۔بینچ اسٹرینتھ کی کمزوری سامنے آئی ہے۔ سلیکشن کمیٹی کا ’’وژن‘‘سامنے آیا ہے اور اس کے سوا اس شکست سے کچھ بھی ’’مثبت‘‘ پاکستان کرکٹ کو نہیں ملا!!