کرکٹ

پرفارمنس سے بڑھ کر کچھ نہیں!

شاید فٹنس کی اہمیت پہلے کبھی بھی اتنی نہ رہی ہو جتنی کہ حالیہ برسوں میں ہوگئی ہے اور آج کی کرکٹ میں سپر فٹ ہونا ناہیت ضروری ہوگیا ہے ۔ موجودہ دور کے کرکٹرز ’’پیٹ اندر،چھاتی باہر‘‘ کی مثال دکھائی دیتے ہیں ۔’’ڈھیلے ‘‘کرکٹرز کیلئے شاید اب انٹرنیشنل کرکٹ میں جگہ باقی نہیں رہی اور پاکستانی کرکٹ میں فٹنس پر کچھ زیادہ ہی توجہ دی جارہی ہے کہ فاسٹ بولرز اپنی بولنگ سے زیادہ کمر پتلی کرنے اور ’’ڈولے‘‘ بنانے کیلئے فکر مند دکھائی دیتے ہیں اور اب قومی ٹیم میں شمولیت کیلئے فٹنس ٹیسٹ کو پیمانہ بنا لیا گیا ہے۔
ورلڈ کپ کیلئے ٹیم کے انتخاب سے قبل کھلاڑیوں کی کارکردگی سے بڑھ کر فٹنس کو پیمانہ بنایا گیا مگر عماد وسیم کی سلیکشن نے یہ ثابت کیا کہ فٹنس ٹیسٹ پاس نہ کرنے کے باوجود سلیکشن کمیٹی اور ٹیم مینجمنٹ کو جس کھلاڑی کی ضرورت تھی اسے ورلڈ کپ اسکواڈ کا حصہ بنا دیا گیا۔ عماد وسیم فٹنس ٹیسٹ میں مطلوبہ 17.4پوائنٹس حاصل نہ کرسکے اور 17پوائنٹس کیساتھ فٹنس ٹیسٹ میں ناکام رہے مگر ٹیم کا اعلان کرتے ہوئے چیف سلیکٹرانضمام الحق کو تسلیم کرنا پڑا کہ فٹنس ٹیسٹ میں ناکامی کے باوجود عماد وسیم کو منتخب کیا گیا ہے اور پھر اسی عماد وسیم نے انگلینڈ میں کھیلے گئے پہلے پریکٹس میچ میں تین ہندسوں کی اننگز کھیل کر اپنے انتخاب کو درست بھی ثابت کردکھایا۔
موجودہ دور میں فٹنس کی اہمیت سے قطعاً انکار نہیں کیا جاسکتاکیونکہ ایک سپر فٹ کھلاڑی میدان میں زیادہ بہتر کارکردگی کا حامل ہوسکتا ہے لیکن عماد وسیم کی سلیکشن اور پھر ٹور میچ میں پرفارمنس یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ قومی ٹیم میں سلیکشن کیلئے پہلا پیمانہ پرفارمنس ہی ہونی چاہیے ۔عماد وسیم وائٹ بال کرکٹ میں پاکستان کا بہترین بولر تصور کیا جاتا ہے جبکہ بیٹنگ کی اضافی صلاحیت عماد وسیم کو قومی ٹیم کیلئے لازم و ملزوم بنادیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ فٹنس ٹیسٹ کی کسوٹی پر پورا نہ اترنے کے باوجود عماد وسیم کو قومی ٹیم میں شامل کرلیا گیا۔
فٹنس کی اہمیت اپنی جگہ مگر تمام کھلاڑیوں کیلئے فٹنس کا یکساں قانون بنا دینا بھی درست نہیں ہے بلکہ فٹنس کا پیمانہ بھی مختلف کھلاڑیوں کیلئے مختلف ہونا چاہیے۔ یقینا کپتان سرفراز احمد فٹنس کے معاملے میں شعیب ملک کا مقابلہ نہیں کرسکتا بالکل اسی طرح دو لیگ اسپنرز شاداب خان اور یاسر شاہ فٹنس میں بالکل ایک دوسرے کا اُلٹ ہیں مگر یاسر شاہ کو کسی بھی طور پر ٹیسٹ ٹیم سے باہر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ تجربہ کار لیگ اسپنر پانچ روزہ کرکٹ میں پاکستان کا نمبر ون بولر ہے اور یاسر شاہ کے بغیر پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
اگر ایک کھلاڑی پرفارمنس میں بہتر ہے تو پھر فٹنس کسی حد تک ثانوی ہوجاتی ہے جبکہ اوسط درجے کی پرفارمنس کے حامل ایک سپر فٹ کھلاڑی کو محض فٹنس کی بنیاد پر ٹیم میں منتخب نہیں کیا جاسکتا ۔
سلیکشن کمیٹی نے ورلڈ کپ اسکواڈ میں عماد وسیم اور عابد علی کو منتخب کرکے ایک درست فیصلہ کیا ہے کہ دونوں کھلاڑیوں کی فٹنس پی سی بی کے پیمانے کے مطابق شاید اتنی بہتر نہیں مگر کارکردگی کے اعتبار سے دونوں کافی آگے ہیں۔ عابد علی کو پہلے پہل ان فٹ کھلاڑی کہا جاتا رہا مگر ون ڈے ڈیبیو پر سنچری اسکور کرنے والے اوپنر نے 17.4پوانٹس کیساتھ فٹنس ٹیسٹ پاس کرکے ورلڈ کپ اسکواڈ میں جگہ بنا لی۔ضرورت کے تحت عماد اور عابد کو منتخب کیا گیا ہے مگر مستقبل میں فٹنس کی پالیسی میں نرمی اختیار کرتے ہوئے پرفارمنس کو اولین ترجیح دینی چاہیے کیونکہ دور کوئی بھی ہو پرفارمنس سے آگے کچھ بھی نہیں ہے!

Add Comment

Click here to post a comment