کرکٹ

مکی آرتھر کے تین سال!

پاکستانی ٹیم کے ساتھ غیر ملکی کوچز منسلک کرنے کی روایت نئی نہیں ہے بلکہ دو عشروں سے غیر ملکی کوچز پاکستانی ٹیم کی کوچنگ کے فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں۔ 1999ء میں رچرڈ پائی بس پاکستانی ٹیم کے کوچ بنے تو وہ گرین شرٹس کے پہلے غیر ملکی کوچ تھے۔ جیف لاسن ، ڈیو واٹمور اور مکی آرتھر نے بھی پاکستانی ٹیم کی کمان سنبھالی لیکن جو احترام باب وولمر کو ملا وہ شاید ہی کسی اور غیر ملکی کوچ کو مل سکا ہے۔اس وقت مکی آرتھر پاکستانی ٹیم کے ہیڈ کوچ ہیں جنہیں گرین شرٹس کی کوچنگ کرتے ہوئے تین سال مکمل ہوچکے ہیں۔
وقار یونس کے مستعفی ہونے کے بعد 6مئی2016ء کو پاکستان کرکٹ بورڈ نے وسیم اکرم اور رمیز راجہ کی سفارشات پر مکی آرتھر کو قومی ٹیم کا ہیڈ کوچ مقرر کیا جو اس سے قبل جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کی قومی ٹیموں کی کوچنگ کرچکے تھے۔مکی آرتھر نے پاکستانی ٹیم کیساتھ اپنا سفر انگلینڈ میں چار ٹیسٹ میچز کی سیریز 2-2 سے ڈرا کرکے کیا ۔ان تین برسوں میںفٹنس پر بہت زیادہ توجہ دینے والے مکی آرتھر پاکستانی ٹیم نے تینوں فارمیٹس میں مجموعی طور پر 120 میچز میں 67 کامیابیاں دلواسکے ہیں اور51میچز میں پاکستان کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑامگر یہ کامیابیاں زیادہ تر گرین شرٹس کو ٹی20فارمیٹ میں ملیں۔ٹی20سطح پر 37میں سے 30 فتوحات سمیٹنے والی پاکستانی ٹیم کا ریکارڈ ون ڈے انٹرنیشنلز میں ففٹی ففٹی رہا جبکہ ٹیسٹ کرکٹ میں 10فتوحات کے بدلے میں 17ناکامیاں بھی گرین شرٹس کے حصے میں آئیں۔
یہ اعدادوشمار اور میدان کے اندر دکھائی گئی کارکردگی بھی واضح کرتی ہے کہ مکی آرتھر کے دور میں پاکستانی ٹیم نے صرف ٹی20فارمیٹ میں عمدہ کارکردگی دکھائی ہے اور طرز میں دنیا کی بہترین ٹیم ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا مگر ٹیسٹ کرکٹ میں اس ٹیم کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی ہے ۔چند ایک اچھی فتوحات کے علاوہ پاکستانی ٹیم کو پانچ روزہ کرکٹ میں کئی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور خاص طور پر یو اے ای میں کھیلے گئے میچز میں ملنے والی شکستوں نے پاکستانی ٹیم کو اس فارمیٹ میں بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔ اگر ون ڈے فارمیٹ کی بات کریں تو مجموعی طور پر جیت کا ریکارڈ ففٹی ففٹی ہے لیکن چھ بڑی ٹیموں آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ، بھارت، جنوبی افریقہ اور سری لنکا کیخلاف پاکستان نے 40میچز میں صرف 14فتوحات سمیٹی ہیں۔
اگر مکی آرتھر کے تین سالہ دور پر نظر ڈالیں تو 2016ء میں ویسٹ انڈیز میں ٹیسٹ سیریز کی کامیابی اور 2017ء میں چمپئنز ٹرافی کی ٹائٹل فتح کے علاوہ مکی آرتھر کی موجودگی میں پاکستانی ٹیم زیادہ کمال نہیں دکھا سکی اور یہ تاثر شدت سے اُبھرنا شروع ہوگیا تھا کہ مکی آرتھر نے کھلاڑیوں کو بنایا نہیںاور کھلاڑیوں سے اُن کی صلاحیتوں سے بڑھ کر کام نہیں لیا۔پاکستانی ٹیم گزشتہ کئی برسوں سے ٹی20فارمیٹ کی مضبوط ٹیم تصور کی جاتی ہے اور ریکارڈز بھی اس بات کے گواہ ہیں لیکن مصباح الحق اور یونس خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ٹیسٹ ٹیم کو اپنے پیروں پر کھڑا مکی آرتھر کا اصل امتحان تھا جس میں وہ کامیاب نہیں ہوسکے اور ٹیسٹ ٹیم کی کارکردگی دن بدن زوال کا شکار ہوتی گئی۔
پاکستانی ٹیم کیساتھ مکی آرتھر کی آخری اسائنمنٹ ورلڈ کپ ہے جس کے بعد مکی آرتھر کا معاہدہ اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا ۔ممکن ہے کہ ورلڈ کپ میں غیر معمولی کارکردگی مکی آرتھر کے معاہدے میں توسیع کا سبب بن جائے ۔
مکی آرتھر کی مجموعی کارکردگی زیادہ بہتر نہیں ہے لیکن آرتھر کو خوش قسمت کوچ کہا جاسکتا جس نے چمپئنز ٹرافی کی جیت سے نا صرف پاکستان کو ایک بڑی کامیابی دلوائی بلکہ اپنا کیرئیر بھی بچا لیا ممکن ہے کہ قسمت کی دیوی ورلڈ کپ میں بھی مکی آرتھر پر مہربان ہوجائے لیکن سوال یہ ہے کہ ملی جلی کارکردگی کے بعد کیا پاکستان کرکٹ بورڈ دوبارہ کسی غیر ملکی کوچ پر بھروسہ کرے گا یا پھر نظر انتخاب کسی پاکستانی کوچ پر ٹھہرے گی کیونکہ گزشتہ بیس برسوں میں پاکستانی ٹیم کیساتھ منسلک غیر ملکی کوچز نے ممکن ہے کہ سب کچھ حاصل کرلیا ہو مگر انہیں وہ احترام حاصل نہیں ہوسکا جو صرف باب وولمر کے حصے میں آیا ہے!

Add Comment

Click here to post a comment