کرکٹ

یونس خان صرف عظیم کھلاڑی؟

پاکستان کیلئے ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ رنزبنانے والے، سب سے سنچریاںاسکور کرنے والے اور ورلڈ ٹی20کے فاتح کپتان یونس خان یقینا بڑے کھلاڑی تھے اور کرکٹ کے میدان میں انہوں نے جو کارنامے دکھائے ان کی بنیاد پر انہیں عظیم کھلاڑیوں کی صف میں شامل کیا جاسکتا ہے مگر آف دی فیلڈ اُن کے ’’ریکارڈز‘‘ کچھ زیادہ شاندار نہیں ہیں۔
قومی ٹیم میں ساتھی کھلاڑیوں کے ساتھ ہونے والے جھگڑوں سے لے کر کلب میچ کے دوران ایک شائق پر تھپڑوں کی بارش تک یونس خان متعدد مرتبہ اپنے غصے کو نہیں روک سکے۔ ڈومیسٹک ٹورنامنٹس درمیان میں چھوڑ کر گھر کی راہ لینے سے سابق چیئرمین پی سی بی اعجاز بٹ سے معافی مانگنے تک یونس خان کا مزاج بنتا ،بگڑتا اور تبدیل ہوتا رہا ہے ۔یہی تندخو مزاج اور انا کا ماؤنٹ ایوریسٹ یونس خان کیخلاف قومی ٹیم میں بغاوت کا سبب بھی بن چکا ہے ۔ عام طور پر پرسکون رہنے والے اور جونیئر کھلاڑیوں کی مدد کرنے والے یونس خان کسی بھی لمحے کسی آتش فشاں کا روپ دھار سکتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ یونس خان کسی انتظامی پوزیشن کیلئے موزوں امیدوار نہیں ہوسکتے۔
انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد یونس خان کی خواہش تھی کہ وہ جونیئر کرکٹ سے منسلک ہوں اور بھارتی انڈر19ٹیم کیساتھ راہول ڈراوڈ کی موجودگی نے یونس خان کی خواہش کو مزید تقویت بخشی اور پی سی بی کیساتھ سابق کپتان کی بات چیت شروع ہوگئی مگر یونس خان نے کرکٹ بورڈ کے انڈر کام کرنے کی بجائے بورڈ کو اپنے تابع کرنے کی کوشش کی اور بھاری معاوضے کیساتھ جونیئر ٹیم کی کوچنگ سے لے کر سلیکشن تک کے تمام اختیارات مانگ لیے ۔پاکستان کرکٹ بورڈ کیلئے یونس خان کو سیاہ و سفید کا مالک بنا دینا آسان نہ تھا ۔یوں کچھ دنوں کے بے معنی مذاکرات کے بعد پی سی بی اور یونس خان کی شراکت شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگئی۔
لیول ٹو کوچنگ کورس میں کمرہ ’’شیئر‘‘ کرنے پر معترض ہوکر بوریا بستر باندھنے والے سابق کپتان اور عظیم بیٹسمین کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اُن کے کھیلنے کے دن گزر چکے ہیں اور ریٹائرمنٹ کی زندگی مچھلی کا شکار کرکے گزارنے کی بجائے اگر وہ پاکستان کرکٹ کو کچھ لوٹانا چاہتے ہیں تو پھر انہیں انا کے ساتویں آسمان سے نیچے آنا ہوگا۔ اگر وہ لیول ٹو کوچنگ کورس کرنے نیشنل اکیڈمی جائیں گے تو انہیں وی آئی پی پروٹوکول نہیں ملے گا بلکہ انہیں دیگر کوچز کیساتھ ہی رکھا جائے گا جنہوں نے شاید فرسٹ کلاس کرکٹ بھی نہ کھیلی ہو۔
اگر یونس خان پاکستان کرکٹ کی ’’خدمت‘‘ کرنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں راہول ڈراوڈجیسا رویہ اپنانا ہوگا جو اپنی عظمت کو ایک طرف رکھتے ہوئے بھارتی کرکٹ بورڈ کے قوانین و ضوابط کے تحت جونیئر ٹیموں کی کوچنگ کرتے ہوئے بہترین نتائج حاصل کررہے ہیں۔ اگر یونس خان پی سی بی کیساتھ کام کرنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں اپنے رویے میں بھی لچک لانا ہوگی کیونکہ دنیا کے کسی بھی ادارے میں ایسا نہیں ہوتا کہ وہ کسی ایک شخص کے ہاتھ میں تمام تر اختیارات سونپ دیں اور وہ بھی ایسے شخص کے ہاتھ میں جس نے اس سے قبل مذکورہ پوزیشن پر کام بھی نہ کیا ہو۔
ناجانے ہمارے سابق کھلاڑی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ’’اسٹارڈم‘‘ سے باہر کیوں نہیں نکلتے۔وہ کیوں نہیں سمجھتے ہیں کہ وہ ماضی کے اسٹارز تھے جبکہ موجودہ دور کے اسٹارز اور ہیں۔کئی سابق کھلاڑیوں کا کوچنگ کیرئیر اس لیے پروان نہیں چڑھ سکا کہ وہ ماضی کا عروج گھر پر رکھ کر آنے کو تیار نہ تھے اور اس سخت رویے نے نہ صرف انہیں نقصان پہنچایا بلکہ پاکستان کرکٹ بھی اس نقصان کی زد میں آئی۔
اگر یونس خان واقعی پاکستان کرکٹ کو کچھ واپس کرنا چاہتے ہیں اور نوجوان کھلاڑیوں کی صلاحیتوں میں نکھار لانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں انا کے ایفل ٹاور سے نیچے اُتر کر زمین پر آنا ہوگا ورنہ دوسری صورت میں انہیں صرف عظیم کھلاڑی کے طور پر یاد کیا جائے گا جو ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان کرکٹ کو کچھ بھی نہ دے سکا!!

Add Comment

Click here to post a comment