کرکٹ

ڈومیسٹک کرکٹ کا ڈھانچہ پھر سے تبدیل

سیاسیات کی جماعت میں ایک اصطلاح بار بار استعمال کی جاتی تھی۔ بہت دفعہ سمجھانے کے باوجود ہمارے اساتذہ اس اصطلاح کو درست انداز میں سمجھا نہیں پاتے تھے شاٸد اس وقت ہم لوگوں کا شعور اتنا بلند نہیں تھا کہ ہم اس اصطلاح کو صحیح انداز میں سمجھ سکتے۔ اصطلاح یہ تھی، ”نظریے اور عمل میں فرق“ جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کسی معاشرے سے نظریے کو لیں اور اس کو کسی دوسرے معاشرے میں رائج کردیں۔ لیکن  یقینی طور پر وہ دوسرے معاشرے میں یکساں کام نہیں کر سکے گا کیوں کہ اس معاشرے کی سوچ، نظام، ثقافت اور دیگر چیزیں اس معاشرے سے مختلف ہوتی ہیں۔ اکثر ہمارے استاد یہ مثال دیا کرتے تھے کہ آپ ایک معاشرے سے کوئی سیاسی نظام لے لیں اور اس کو دوسرے معاشرے میں رائج کربھی دیں لیکن نتیجہ بالکل منفی آئے گا کیوں کہ آپ کا نظام دوسرے معاشرتی نظام سے بالکل مختلف ہے۔
آج کل یہ بحث چل رہی ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ پاکستان ڈومیسٹک کرکٹ کا ڈھانچہ تبدیل کرنے جا رہا ہے۔اور آنے والے ڈومیسٹک سیزن میں آسٹریلوی انداز کا ڈومیسٹک ڈھانچہ متعارف کروایا جائے گا۔ جس کے اندر محض چھ ٹیمیں ہی فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل سکیں گی اور یوں محکموں کی بھی چھٹی ہو جائے گی۔ اگر اب نظریے اورعمل کے فرق کو دیکھا جائے تو مزید دلیل سے  بات کی جا سکتی ہے۔ آسٹریلیا کی آبادی کی دو کروڑ اور چھیالیس لاکھ ہے اور چھ  ڈومیسٹک ٹیمیں ہے۔ جس کا مطلب ہے اکیالیس لاکھ لوگوں پر مبنی ایک ٹیم ہے اور وطن عزیز کی آبادی قریباً بیس کروڑ ہے۔ اگر چھ ٹیمیں کردی گئی میں تو اس کا مطلب ہے، آبادی کے اعتبار سے ہر ڈومیسٹک ٹیم تین کروڑ اٹھائیس لاکھ کھلاڑیوں پر مشتمل ہوگی۔ جو آسٹریلیا کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ 
پاکستان ڈومیسٹک کرکٹ کا ڈھانچہ ہر ڈومیسٹک سیزن میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔کبھی تو محکموں اور ریجنز کو ملا کر کھیلایا جاتا ہے اور کبھی الگ الگ کھیلا دیا جاتا ہے اور کبھی تو ریجنز کو اجازت دی جاتی ہے کہ آپ محکموں کے کچھ کھلاڑی کھیلا لیں۔ جس کا منفی اثر سیدھا کھلاڑیوں پر ہوتا ہے۔ کیونکہ کھلاڑی ڈومیسٹک سیزن سے قبل اپنی تیاری مکمل نہیں کر پاتے۔محکمہ جاتی کرکٹ پاکستان ڈومیسٹک کرکٹ کے آغاز سے ہی جاری ہے اور اس طرز کی کرکٹ سے ہرازوں بلکہ سینکڑوں کھلاڑیوں کا روزگار لگا ہے۔ روزگار کے ساتھ ساتھ اس طرح کی کرکٹ نے پاکستان کو بڑے بڑے کھلاڑی دیے ہیں۔ جن میں جاوید میاں داد، اقبال قاسم، محسن حسن خان، مصباح الحق، یونس خان اور دیگر لیجنڈری کھلاڑی شامل ہیں۔ محکمہ جاتی کرکٹ بند کر دی گئی تو ہزاروں لوگوں کے گھروں کے چولہے بھی بند ہوجائیں گے۔ جب کہ نوجوان کھلاڑی بھی اس سے بے حد متاثر ہوں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈومیسٹک سیزن دو ہزار بارہ تیرہ(13-2012)کو واپس رائج کردیا جائے۔ جس میں محکمے اور ریجن الگ الگ کھیلیں گے جبکہ ریجن کی ٹیم کو 4 یا 5 محکمہ جاتی کھلاڑی کھلانے کی اجازت ہوگی جس سے ڈومیسٹک کرکٹ کا معیار بہتر ہوگا اور زیادہ سے زیادہ کھلاڑی بھی ڈومیسٹک کرکٹ کھیل سکیں گے۔ یوں آپ مقدار کے ساتھ معیار کو بھی بہتر کر سکیں گے۔

Add Comment

Click here to post a comment