کرکٹ

اَجو بھائی…کچھ تو کریں!!

دوسرے ون ڈے انٹرنیشنل میں 374رنز کا تعاقب بھرپور انداز میں کیا گیا تو قوم نے اپنے بلے بازوں کو بھرپور داد دی، اگلے میچ میں 359رنز کا ماؤنٹ ایورسٹ کھڑا کیا گیا تو سوشل میڈیا پر خوشی کے شادیانے بجائے گئے، بیٹسمینوں کو سر کا تاج بنا لیا گیا مگر …مگر ان دونوں بیٹسمینوں میں بیٹسمینوں کی عمدہ کاوش کے باوجود پاکستانی ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کا سبب ناقص فیلڈنگ اور اس سے بھی بڑھ کر غیر معیاری بولنگ تھی۔
انگلینڈ کے بیٹسمینوں نے جس انداز سے پاکستانی بولرز کی ’’دھلائی‘‘ کی اس کو دیکھ کر یوں لگ رہا تھا کہ کرکٹ کے میدان میں نہیں بلکہ کسی ویڈیو گیم میں یہ مقابلے چل رہے تھے۔ انگلش بیٹسمین جہاں چاہتے، جب چاہتے گیند کو اُٹھا کر میدان سے باہر پھینک دیتے اور پاکستانی بولرز بے بسی کی تصویر بنے دکھائی دیتے۔
گزشتہ برسوں میں کرکٹ کا کھیل 180 کے زاویے پر بدل چکا ہے ۔ماضی میں انگلش وکٹیں ون ڈے فارمیٹ میں بھی بیٹسمینوں کا امتحان لیا کرتی تھیں مگر 350رنز عام سی بات ہوگئی ہے۔اس صورتحال میں بولرز پر بھی لازم ہے کہ وہ ماضی کے برعکس انگلینڈ میں سیم اور سوئنگ پر بھروسہ کرنے کی بجائے کچھ نئی ترکیبیں آزمائیں اور ایسا کرنے کیلئے انہیں بولنگ کوچ کی مدد درکار ہے۔
یہ پاکستانی ٹیم کی ’’خوش قسمتی‘‘ ہے کہ اظہر محمود ساگر جیسا بولنگ کوچ اس ٹیم کے حصے میں آیا ہے کیونکہ موجودہ دور میں شاید ہی کوئی دوسرا پاکستانی اظہر محمود سے زیادہ انگلش کنڈیشنز اور وکٹوں کو سمجھتا ہو۔20برس قبل انگلینڈ میں کھیلے گئے ورلڈ کپ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے ’’اَجو‘‘نے طویل عرصے تک انگلینڈ میں کاؤنٹی کرکٹ کھیلی ہے اور چند برس قبل کھلاڑی کی حیثیت سے ریٹائر ہونے کے بعد اظہر محمود نے کوچنگ کے شعبے میں بھی اپنا نام کمایا ہے مگر ورلڈ کپ سے قبل انگلینڈ میں پاکستانی بولرز کی جو درگت بن رہی ہے اسے سامنے رکھتے ہوئے یوں لگ رہا ہے کہ میدان کے اندر جتنے بے بس پاکستانی بولرز ہیں میدان کے باہر اظہر محمود بھی اتنے ہی بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔
پاکستانی بولرز نے انگلینڈ میں ابھی تک جیسی ’’کارکردگی‘‘ دکھائی ہے اس پر ان بولرز کو کچھ بتانا یا سمجھانا مشکل ہے مگر اظہر محمود تو تجربہ کار ہیں اور کھیل کے دنوں میں اُن کے ترکش میں کئی تیر ہوا کرتے تھے جسے وہ وقتاً فوقتاً چلایا کرتے تھے مگر انگلش کنڈیشنز کا بھرپور تجربہ رکھنے کے باوجود ’’اَجو بھائی‘‘ اپنا تجربہ بولرز میں منتقل کرنے میں ناکام ہورہے ہیں۔
دونوں ون ڈے میچز میں پاکستانی پیسرز نے زیادہ تر گیندیں انگلش بیٹسمینوں کو بالکل سامنے گڈ لینتھ سے بھی آگے کیں جن پر بڑے اسٹروکس کھیلنا انگلینڈ کے بیٹسمینوں کیلئے بالکل بھی مشکل نہ تھا ۔فاسٹ بولرز کی جانب سے پیس میں اتار چڑھاؤ نہیں دیکھا گیا ۔وہ پرفیکٹ یارکرز کہاں گئے جو پاکستانی فاسٹ بولرز کا خاصہ ہوا کرتے تھے ، سلو باؤنسرز کی جدت کہاں گم ہوگئی ہے جس میں اظہر محمود کو بھی اچھی خاصی مہارت حاصل تھی۔اسپنرز اگر گیند کو گھمانے میں ناکام ہیں تو پھر انہیں اپنی لائن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔اگر پاکستانی بولرز اسی طرح روایتی انداز سے بولنگ کرتے رہے تو پھر انگلش بیٹسمین بھی اُن کی درگت بناتے رہیں گے۔
اظہر محمود کی صلاحیتوں پر شک نہیں ہے اور موجودہ سیٹ اَپ میں شاید وہ سب سے زیادہ قابل کوچ بھی ہیں جنہوں نے ماضی قریب میں پاکستانی بولرز نے نہایت عمدہ کام بھی لیا ہے مگر میگا ایونٹ سے پہلے پاکستانی بولرز کی کارکردگی نا صرف اظہر محمود کی اہلیت پر سوالیہ نشان لگارہی ہے بلکہ پاکستانی ٹیم کے مضبوط ترین پہلو کو کمزور ترین ثابت کررہی ہے۔اس لیے اب ’’اَجو بھائی‘‘ کو کچھ کرنا ہوگا اور بہت جلد کرنا ہوگا!

Add Comment

Click here to post a comment