کرکٹ

وارم اَپ میں ناک آؤٹ!

افغانستان کیخلاف وارم اَپ میچ میں پاکستانی ٹیم ناک آؤٹ کیا ہوئی سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہے۔
کوئی سرفراز الیون کے لتے لے رہا ہے ، کوئی ہر حال میں گرین شرٹس سے اچھی امیدیں باندھے ہوا ہے، کسی کو سلیکشن پر اعتراض ہے تو کوئی وارم اَپ میچز کے حوالے سے تاویلیں دے رہا ہے۔
92ء میں بھی پاکستانی ٹیم لگ بھگ تمام وارم اَپ میچز ہار گئی تھی اور پھر یہی ٹیم 25مارچ کو میلبورن کے میدان پر فاتح عالم بن کر سامنے آئی…
2007ء میں گرین شرٹس نے وارم اَپ میچ میں جنوبی افریقہ جیسی مضبوط ٹیم کو ٹھکانے لگایا مگر ’’اصل مقابلے‘‘ میں آئرلینڈ نے پاکستانی ٹیم کو ناکوں چنے چبوادیے…
افغانستان کیخلاف یہ وارم اَپ میچ تھا جس میں تمام کھلاڑیوں کو آزمانا مقصود تھا …
یاد رکھیے وارم اَپ میچز اور ورلڈ کپ کے مقابلوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔وارم اَپ میچز میں دکھائی گئی کارکردگی کو ورلڈ کپ میں ٹیموں کی پرفارمنس کیلئے کسوٹی نہیں بنایا جاسکتالیکن یہ میچز اپنی خوبیوں، خامیوں اور منفی و مثبت پہلوؤں سے آگاہی کی بہترین مشق ہیں۔
پاکستان بمقابلہ افغانستان میچ کے نتیجے کو ایک طرف رکھ دیں مگر اس میچ کی پرفارمنس نے پاکستانی ٹیم کے کچھ ایسے پہلوآشکار کیے ہیں جو ٹیم مینجمنٹ کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہیں۔
اگر سات اسپیشلسٹ بیٹسمین مل کر بھی پچاس اوورز نہ کھیل سکیں تو یہ بات تشویش کا سبب ہے۔
اگر دونوں اوپنرز مجموعی طور پر تین چانسز ملنے کے باوجود بڑی اننگز نہ کھیل سکیں تو اس پر سوچنا ضروری ہے۔
اگر تین معیاری اسپنرز کیخلاف پاکستانی بیٹسمین بے بس ہوجائیں تو پھر ٹیم مینجمنٹ کو فکر ہونی چاہیے۔
اگر ٹاپ بیٹسمین کی سنچری ٹیم کے کسی کام نہ آسکے تو پھر کوچ کی صلاحیتوں پر سوال اُٹھتا ہے۔
اگر مخالف اوپنرز نئے گیند پر فاسٹ بولرز کیساتھ جلادوں جیسا سلوک کریں تو پھر بولنگ کوچ کے اوسان خطا ہوجانے چاہیے۔
اگر اسٹرائیک بولر اور سینئر بولر وکٹیں لینے کی بجائے رنز روکنے کی کوشش شروع کردے توپھر تھنک ٹینک کے وژن کا اندازہ ہوجاتا ہے۔
ان تمام تشویش ناک پہلوؤں کے باوجود گرین شرٹس کو تھوڑا سا مارجن دینا ہوگا ۔کپتان سرفراز احمد کو غیر مقبول فیصلوں کے باوجود سپورٹ کرنا ہوگاکیونکہ ماضی میں جو کچھ ہوچکا ہے اسے بھول کر اسی ٹیم کو سپورٹ کرنا ہوگا اور شائقین کی اکثریت تمام تر ناکامیوں اور کوتاہیوں کے باوجود اس ٹیم کو مکمل طور پر سپورٹ کررہی ہے کیونکہ ہمیشہ کی طرح عوامی خواہش یہی ہے کہ پاکستان کی یہ ٹیم ورلڈ کپ ٹرافی کیساتھ وطن واپس آئے۔
پاکستانی عوام کی سپورٹ سرفراز احمد اور ان ٹیم کو حاصل ہے لیکن سبز وردیوں میں ملبوس ان پندرہ کھلاڑیوں اور ان کیساتھ موجود کوچنگ اسٹاف کو بھی اپنی خامیوں پر قابو پانا ہوگا کیونکہ ورلڈ کپ سے پہلے مسلسل دس ون ڈے میچز ہارنے والی ٹیم کے کپتان سرفراز احمد کی اس تاویل کو قبول کیا جاسکتا کہ ’’ٹیم اچھا کھیلی مگر جیت نہیں سکی‘‘ مگر میگا ایونٹ میں اس قسم کے جواز اور تاویلیں نہایت بھونڈی دکھائی دیں گی!

Add Comment

Click here to post a comment