کرکٹ

اُمیدوں کی بیساکھیاں!

میں پاکستانی ٹیم کے جذباتی مداحوں سے گالیاں کھانے کیلئے تو تیار ہوں مگر آپ مجھے حقیقت بیان کرنے سے روک نہیں سکتے۔
چاہے آپ مجھے تنقید کے تیروں سے چھلنی کیوں نہ کردیں مگر آپ مجھے بیساکھیوں پر کھڑے اس کرکٹ سسٹم کو ’’سوپر ڈوپر‘‘ کہنے پر مجبور نہیں کرسکتے۔
اس بات سے فکر نہیں پڑتا کہ پاکستانی ٹیم وارم اَپ میچ میں افغانستان کیخلاف شکست خوردہ ہوکر میدان سے باہر نکلی یا پھر بنگلہ دیش کیخلاف گرین شرٹس کو میدان میں اترنے کا موقع ہی نہیں ملا کیونکہ ورلڈ کپ کے ’’اصل مقابلوں‘‘ میں معاملات کچھ اور ہونگے مگر یہ کیسا کرکٹ سسٹم ہے جو چار سال تک قومی ٹیم کو اپنے پیروں پر کھڑا نہیں کرتا مگر ہر ورلڈ کپ میں قوم کو دعاؤں اور امیدوں کی بیساکھیوں پر کھڑا کردیتا ہے؟
اُمیدوں کی یہ لڑکھڑاتی ،سنبھلتی بیساکھیاں شائقین کرکٹ کو ’’تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے‘‘ جیسے نعرے بھی دیتی ہیں اور انہیں اگلے ورلڈ کپ کا سراب بھی دکھا دیتی ہیںمگر ایسی ٹیم تیار کرکے نہیں دیتیں جس پر آنکھیں بند کرکے بھروسہ کیا جاسکے۔
یہ کرکٹ سسٹم کی ناکامی ہے جو ہر مرتبہ قوم کو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہے اور کبھی ناک آؤٹ مرحلے تک پہنچنے کو ہی کامیابی تصور کرلیا جاتا ہے اور کبھی کسی ایک کھلاڑی کو قربانی کا بکرا بنا کر پیش کردیا جاتا ہے کہ گویا مذکورہ کھلاڑی قومی ٹیم میں نہ ہوتا تو عالمی کپ پاکستانی ٹیم کی مُٹھی میں تھا۔
ذرا یاد کریں 2003ء سے 2015ء تک چارعالمی کپ مقابلوں میں قومی ٹیم کی کارکردگی اور پھر شکستوں پر تراشے جانے والے بہانے …سب کچھ یاد آجائے گا کہ کس طرح اس کھوکھلے سسٹم اور اس کے رکھوالوں نے قوم کو بے وقوف بناتے ہوئے اگلے عالمی کپ کی ’’چوسنی‘‘ تھما دی۔
اب 2019ء کا ورلڈ کپ صرف چند دنوں کی دوری پر ہے۔ قومی ٹیم کی کارکردگی پر نگاہ ڈالیں تو مسلسل دس ون ڈے میچز میں ناکامی نے اس ٹیم کے مورال کو کسی حد تک نیچے گرا دیا ہے۔ممکن ہے کہ پاکستانی ٹیم افغانستان، بنگلہ دیش اور ویسٹ انڈیز کے علاوہ سری لنکا کیساتھ ساتھ کسی ایک بڑی ٹیم کو زیر کرکے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرلے اور پھر کوئی معجزہ ہوجائے…ممکن ہے کہ پاکستانی ٹیم آخری چار ٹیموں میں بھی جگہ نہ بنا پائے مگر سوال یہ ہے کہ جیت کی صورت میں کامیابی کا کریڈٹ کون لے گا اور خوانخواستہ ناکامی کے بعد کون اپنی گردن پیش کرے گا؟
اگر عالمی رینکنگ میں چھٹے نمبر کی ٹیم مسلسل دس میچز ہارنے کے بعد عالمی کپ جیت جاتی ہے تو کیا اس کا کریڈٹ پاکستان کے کرکٹ سسٹم کو دیا جائے گا جو ہڑبڑاہٹ کے عالم میں ایک ایسے بولر کو ورلڈ کپ اسکواڈ کا حصہ بنا لیتا ہے جو سلیکشن کمیٹی اور ٹیم مینجمنٹ کی نظر میں ’’بیکار‘‘ تھا اور دو سال سے قومی ٹیم میں واپسی کے ’’خواب‘‘ دیکھ رہا تھا۔یا پھر اس کامیابی کا کریڈٹ کپتان، کوچ، سلیکشن کمیٹی یا پھر اہم میچز میں عمدہ کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کو چلا جائے گا ۔
اگر پاکستانی ٹیم سیمی فائنل تک پہنچ گئی تو اسے ’’بہتر نتیجہ‘‘ تسلیم کیا جائے گا جس کے سبب بہت سے لوگوں کی کرسیاں بچ جائیں گی اور اگر فائنل فور میں بھی جگہ نہ ملی تو سب رگڑے جائیں گے اور ’’ہوم سیل‘‘ تبدیلیاں شروع ہوجائیں گی مگر اس سب کے بیچ کرکٹ سسٹم پر کوئی بات نہیں کرے گا اور محض چہروں کی تبدیلی کیساتھ اگلے چار برس تک سہانے خواب دکھانے کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔
اگر 1992ء میں قومی ٹیم دعاؤںکے سہارے اور انہونیوںکے سبب جیت گئی، اگر 2009ء میں ٹی20فارمیٹ کو ’’فن کرکٹ ‘‘ کہنے والا کپتان ٹرافی لے اُڑا اور 2017ء میں چمپئنز ٹرافی کیلئے بمشکل کوالیفائی کرنے والی ٹیم چمپئن بن گئی تو پھر کرکٹ کا وہ ڈھانچہ اور سسٹم مجھے کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا جو چار برسوں میں انگلش ٹیم کی کایا پلٹ دیتا ہے، جو بھارتی ٹیم کو ناقابل تسخیر بنادیتا ہے ، جو کیویز کو بڑے حریفوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا حوصلہ دیتا ہے، جو افغانستان کو مسلسل دو عالمی کپ کھلا دیتا ہے اور جو اہم کھلاڑیوں کی عدم دستیابی کے باوجود آسٹریلین کرکٹ کو گرنے نہیں دیتا ۔
اگر اس کھوکھلے اور بوسیدہ کرکٹ سسٹم کو ٹھیک کرنے کی بجائے محض زبانی جمع خرچ کرکے مفادات کا تحفظ کرنا ہے تو پھر 2019ء میں بھی رمضان المبارک، 92ء والا فارمیٹ، انگلینڈ میں چمپئنز ٹرافی کی فتح جیسے ’’اتفاقات‘‘ کو بنیاد بنا کر اُمیدوں کی بیساکھیاں ٹیکنا شروع کردیں!!