ویسٹ انڈیز کیخلاف پہلے میچ سے قبل کبھی رمضان المبارک کا سہارالیا جارہا تھا ،کبھی جمعتہ الوداع کو ڈھال بنانے کی کوشش کی جارہی تھی اور یہ حقیقت فراموش کردی گئی تھی کہ میدان میں فتح حاصل کرنے کیلئے صرف دعائیں کام نہیں آتیں بلکہ میدان کے اندر کچھ کردکھانے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
جب ویسٹ انڈین بولرز کے سامنے پاکستانی بیٹنگ لائن جواب دے گئی تو ایک طرف سوشل میڈیا پر لعن طعن کی گئی تو دوسری جانب اس شکست سے بھی ’’مثبت‘‘ پہلو نکالنے والوں نے اسے 1992ء کے ورلڈ کپ کیساتھ جوڑ دیا کہ 27برس قبل بھی پاکستانی ٹیم ویسٹ انڈیز کیخلاف یکطرفہ مقابلے میں شکست سے دوچار ہوئی تھی جس کے بعد ٹرافی گرین شرٹس کا مقدر بن گئی تھی!
کیسی کیسی تاویلیں دی جارہی ہیں اور کس کس طرح خامیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے دعاؤں اور اتفاقات کے سہارے قومی ٹیم سے جیت کی امیدیں باندھ لی گئی ہیں۔
ایک طرف پاکستانی ٹیم کے ٹھٹھے اُڑائے جارہے ہیں، شکست کے بعد لطیفے ’’ایجاد‘‘ کیے جارہے ہیں ، شائقین میں شدید غصہ ہے ، کوئی کپتان کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ گیا ہے تو کسی کو اس بیٹنگ لائن سے نفرت ہونا شروع ہوگئی ہے جبکہ دوسری جانب 2019ء کو عالمی کپ کو 92ء کیساتھ جوڑ تے ہوئے کچھ لوگ سب کچھ نظر انداز کرتے ہوئے 14جولائی کو لارڈز کے میدان پر سرفراز احمد کو ورلڈ کپ کے ہمراہ دیکھ رہے ہیں۔
یاد رکھیے یہ 92ء ہرگز نہیں ہے اور کسی طرح بھی نہیں ہوسکتا۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ 1992ء میں پاکستانی ٹیم کچھ زیادہ مضبوط نہیں تھی جس میںسعید انور، وقار یونس، عبدالقادر اور سلیم جعفر جیسے کھلاڑی موجود نہیں تھے اور ان کی جگہ لینے والوں کے ناموں سے آج بھی لوگ واقف نہیں ہے مگر اس کے باوجود 92ء کی ٹیم میں جاوید میانداد اور وسیم اکرم جیسے میچ ونرز موجود تھے، رمیز راجہ اور سلیم ملک کا تجربہ اُس ٹیم کو حاصل تھا ، انضمام،مشتاق اور عاقب جیسے پرجوش نوجوان تھے جو اس ایونٹ سے اسٹار بنے اور سب سے بڑھ کر عمران خان جیسا جہاندیدہ کپتان موجود تھا مگر بدقسمتی سے 2019ء کی ٹیم میں ایسا کچھ نہیں ہے۔
دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا اس ٹیم کے پاس جاوید میانداد اور وسیم اکرم سے آدھی صلاحیت کے بھی کھلاڑی ہیں؟کیا انضمام جیسا نوجوان بیٹسمین ہے جو تن تنہا میچ کا پانسہ پلٹ دے ؟کیا عاقب اور مشتاق جیسے پرجوش نوجوان بولرز اس ٹیم کو میسر ہیں جنہوں نے اپنی بساط سے بڑھ کر کارکردگی دکھائی؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر محض 92ء جیسا فارمیٹ ہونے سے 2019ء میں ٹائٹل فتح کے خواب دیکھنا بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں۔
اگر اتفاقات کی بات کرنی ہے تو 2019ء کا فارمیٹ جو 92ء جیسا ہے وہ ٹیموں کو سنبھلنے کا موقع ضرور دیتا ہے۔اس فارمیٹ میں ایسا نہیں ہے کہ لیگ کے تمام میچز جیتنے والی ٹیم کواٹر فائنل میں خراب کھیل پیش کرنے کی پاداش میں ناک آؤٹ ہوجائے یا پھر 2007ء کی طرح ایک اَپ سیٹ شکست کسی بڑی ٹیم کو ٹورنامنٹ سے باہر کردے بلکہ اس ایونٹ میں ٹیموں کے پاس گرنے کے بعد دوبارہ اُٹھنے کا موقع موجود ہے۔
پہلے میچ میں عبرتناک شکست کے باوجود پاکستانی ٹیم کو سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے کیلئے اگلے آٹھ میچز میں سے پانچ میچز میں کامیابی حاصل کرنی ہے کیونکہ چار فتوحات کے باوجود پوزیشن ڈانواڈول ہوسکتی ہے۔سری لنکا، افغانستان اور بنگلہ دیش ایسی ٹیمیں ہیں جنہیں پاکستان ٹارگٹ کرسکتا ہے جبکہ دیگر پانچ بڑی ٹیموںمیں سے دو کیخلاف کامیابی حاصل کرنا ضروری ہوگی۔
اس لیے ابھی بھی بگڑا کچھ نہیں ہے بس ضرورت اس بات کی ہے کہ کپتان سر اُٹھا کر میدان میں اترے، اگلے میچ کیلئے بہترین کمبی نیشن بنایا جائے تو حریف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کیا جائے کیونکہ منفی باڈی لینگویج اور مخالف ٹیم سے متاثر ہونے کی عادت جیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔
اگلا میچ میزبان اور فیورٹ ٹیم انگلینڈ کے ساتھ ہے اور اگر اس میچ میں شاہینوں نے اُڑان بھر لی تو پھر بلندیوں کی جانب سفر شروع ہوجائے گا مگر 92ء کے ساتھ موازنہ، اتفاقات کے بہانے اور صرف دعاؤں کا سہارا لے کر ورلڈ کپ پر اپنا نام نہیں لکھوایا جاسکتا بلکہ اس کیلئے میدان کے اندر اپنی بساط سے بڑھ کر پرفارم کرنے کی ضرورت ہے!
Add Comment