Cricket

لاڈلے کی بے وفائ

اک خواب تھا جو بکھر گیا، اک چمک تھی جو بجھ گئ، اک ارمان تھا جو جھلس گیا۔ ایک کیرئیر جس کے طلوع پر دنیاعَش عَش کر اٹھی تھی، چاہے دیکھنے والی آنکھ جس بھی ملک کی ہو صلاحیت کا سمندر دیکھ کر خِیرہ ہو چکی تھی، ایک امید تھی کہ یہ ننھا سا لڑکا کل کا عظیم ستارہ بنے گا۔ کوئ وجہ نہیں، کوئ راستہ نہیں کہ کھیل کے عظیم کھلاڑیوں کی فہرست سے اس لڑکے کو کوئ دور رکھ سکے۔ لیکن پھر ۔۔۔۔ دس برس کے عرصے میں وہ تابناک کیرئر فقط چار برس ہی جگمگا سکا۔ وہ جو ایک عظیم کیرئیر ہوسکتا تھا، ایک عمومی انجام کو پہنچا۔ محمد عامر نے ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لی۔

اگر بات صرف ریٹائرمنٹ کی ہوتی تو شاید کچھ خاص نہ ہوتی۔ اس کیرئیر کے ساتھ جہاں اور بہت کچھ وابستہ تھا وہیں شاید پرستاروں، منتظمین اور نقادوں کے جزبات سے سرشار خیالات بھی جڑے ہوئے تھے۔ ۲۰۱۰ میں پیش آنے والے واقعات کے بعد، پاکستان کیا شاید دنیائے کرکٹ میں بھی شاید ہی کوئ ایسا شخص ہو جس کی عامر کے بارے میں اچھی یا بری کوئ رائے نہ ہو۔ رائے بھی وہ جو صرف رائے نہ ہو بلکہ وہ رائے جو جزبات کی حدت اور جوش کی تمازت سے مالامال ہو۔
کچھ کے لئے عامر ایک معصوم بچہ تھا جسے ورغلایا گیا اور ننھا کاکا انجانے میں وہ غلطی کربیٹھا جس کی سزا اس کو نہیں ورغلانے والوں کو ملنی چاہئے۔

دوسری طرف وہ تھے جن کے لئے غلطی کا ارتکاب ہی کافی تھا اور گو کہ تکنیکی طور پر اسپاٹ فکسنگ، ملک بیچنے کے زمرے میں اس طرح نہیں آتی جتنی وضاحت سے میچ فکسنگ شمار کی جاتی ہے لیکن کچھ لوگوں کے نزدیک عامر کو میچ فکسنگ سے بھی سخت، تاحیات پابندی کی سزا ملنی چاہئے تھی۔ اتنی سخت کہ جو اس سے پہلے میچ فکسنگ میں ملوث پائے جانے والے بیشتر کو بھی نہیں دی گئ۔
بہرحال دونوں طرح کی رائے رکھنے والوں کا پرجوش اختلاف جاری رہا اور آخر کار پانچ سالہ پابندی کے اختتام کا وقت آپہنچا۔ اب سوال یہ درپیش تھا کہ کیا پانچ سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی کیا یہ نیا عامر میدان میں پرانے عامر جیسے جوہر دکھانے کے لئے تیار ہے؟ عامر کی حامی رائے رکھنے والوں کے نزدیک یہ کوئ سوال ہی نہیں تھا۔ ان کے نزدیک عامر کا ٹیلنٹ ہی ہر سوال کا جواب تھا، ان کے مطابق تو۲۰۱۰ سے ۲۰۱۵ کے عرصے میں پاکستان کے حصے میں آنے والی تمام ناکامیوں کی وجہ بھی عامر جیسے نایاب ٹیلنٹ کی غیرموجودگی تھی۔ ان سب کے مطابق ٹیلنٹ ایک ایسی چیز ہے جس کے آگے محنت، پریکٹس اور ثابت قدمی کی کوئ حیثیت نہیں۔ اور ٹیلنٹ کے معاملے میں تو عامر مالامال تھا۔ اس بنا پر سوال یہ نہیں تھا کہ کیا عامر کو پاکستان ٹیم میں شامل کیا جائے بلکہ سوال یہ تھا کہ ایسا کب کیا جائے۔

عام شائقین تو ایک طرف، پاکستان کے اس وقت کے چیف سیلیکٹر ہارون رشید بھی یہ کہہ گئے کہ عامر جتنا ٹیلنٹڈ کھلاڑی پاکستان میں دستیاب نہیں اس لئے پابندی کے خاتمے کے بعد ان کی پاکستان ٹیم میں جگہ خود بخود بنتی ہے۔
اور یوں ۲۰۱۶ میں ایک طرف ٹیلنٹڈ عامر تھے اور دوسری طرف وہ سارے کم ٹیلنٹڈ بولر جو عامر کی غیر موجودگی میں پاکستان کی بولنگ کا بوجھ سیدھے راستے پر چلتے ہوئے اٹھاتے رہے۔
آخر کار ٹیلنٹ کی جیت ہوئ اور ٹیلنٹڈ عامر کو تمام کم-ٹیلنٹڈ بولرز پر فوقیت دے کر پاکستان ٹیم کا حصہ بنادیا گیا۔ کچھ کے نزدیک یہ ایک مستحق کو اس کا حق دلانے کے مترادف تھا جب کہ باقی کچھ کے لئے پاکستان کرکٹ میں ایک نئے لاڈلے کے واپسی ہوچکی تھی۔

عامر ۲۰۱۶ میں لاڈلہ تھا یا مستحق، اس سے قطع نظر، ۲۰۱۹ میں ٹیلنٹڈ عامر نے ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا۔ ٹیسٹ کرکٹ، کرکٹ کا وہ فارمیٹ جس کو کرکٹ کا عظیم سے عظیم کھلاڑی بھی ترجیح دیتا ہے، کرکٹ کی وہ طرز جو اچھے اور عظیم کھلاڑیوں میں تفریق کا پیمانہ سمجھا جاتا ہے۔ عامر کے اب تک کے ٹیسٹ کیرئیر میں ایک تابناک مستقبل کی رمق تو چاہے نظر آتی ہو لیکن بہر حال اس میں عظمت کی کوئ جھلک نظر نہیں آتی اور ریٹائرمنٹ کی بنا پر اب اس میں کسی قسم کی تبدیلی کا بھی کوئ امکان نہیں۔ یوں ٹیلنٹڈ عامر کا کیرئیر بھی عظیم سے زیادہ عام کیرئیرز میں شمار کیا جائے گا۔ محدود اوورز کی کرکٹ میں چاہے عامر کتنے ہی جھنڈے گاڑ دے، شاید اس عظمت کو کبھی نہیں پہنچ پائے گا جو ٹیسٹ کرکٹ کے چیدہ کھلاڑیوں کے نصیب میں آتی رہی ہے۔
ریٹائرمنٹ سے پیشتر، ٹیسٹ کرکٹ میں ۲۰۱۶ کے بعد ۳ برس بھی عامر کے لئے ایسے کوئ شاندار نہیں گزرے۔ اگر مان بھی لیا جائے کہ ان برسوں میں عامر کی کارکردگی خراب نہیں تھی تو بھی بہر حال کارکردگی اتنی اچھی بھی نہیں تھی کہ جس سے ۲۰۱۶ میں “ٹیلنٹڈ عامر” کو “کم۔ٹیلنٹڈ” بولرز پر ترجیح دیئے جانے کے فیصلے کو حق بجانب کہا جاسکے۔

ایک طرف تو پاکستان کرکٹ اور اس کے پرستاروں نے عامر کو پابندی ختم ہوتے ہی پاکستان ٹیم میں واپس پہنچا کر عامر اور ٹیلنٹ سے اپنی محبت کا حق ادا کردیا۔ لیکن کیا عامر اس والہانہ، بلکہ دیوانہ وار، محبت کا حق ادا کرسکا؟ کیا عامر پاکستان کرکٹ اور اس کے پرستاروں کی اس محبت کا حق ادا کرسکا جس کا اظہار پاکستان کرکٹ اور اس کے پرستاروں نے عامر سے کم-ٹیلنٹڈ کھلاڑیوں سے بے وفائ کے صورت میں کیا تھا؟ کیا عامر اس لاڈلے برتاؤ کا حق ادا کرسکا؟
یا پھر اس رومانوی داستان کا انجام بھی “لاڈلے کی بے وفائ” پر ہی ہوا؟ کیا پاکستان کرکٹ اور اس کے پرستار اس کہانی کے اس انجام سے کچھ سیکھ پائیں گے؟ یا پھر پاکستان کرکٹ میں پھر کسی اور “لاڈلے” اور اس کی “بے وفائ” کا وقت ہواچاہتا ہے۔

Add Comment

Click here to post a comment